Ash-Shu'araa • UR-TAZKIRUL-QURAN
﴿ يَوْمَ لَا يَنفَعُ مَالٌۭ وَلَا بَنُونَ ﴾
“the Day on which neither wealth will be of any use, nor children,”
اس آیت میں ’’حکم‘‘ سے مراد فہم صحیح ہے۔ یعنی چیزوں کو ویسا ہی دیکھنا جیسا کہ وہ فی الواقع ہیں۔ نبوت کے بعد کسی بندۂ خداکے ليے یہ سب سے بڑی نعمت ہے۔ اسی ليے حدیث میں آیا ہے کہ مَنْ يُرِدِ اللهُ بِهِ خَيْرًا يُفَقِّهْهُ فِي الدِّينِ (صحیح البخاری، حدیث نمبر 71 )يعني، اللہ جس شخص کے ليے خیر کا ارادہ کرتاہے اس کو دین کی سمجھ دے دیتاہے)۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنی دعا میں جو باتیں کہیں وہ سب قبول ہوگئیں۔ مگر اپنے باپ (آزر) کی مغفرت کی دعا قبول نہیں ہوئی۔ اس سے اندازہ ہوتاہے کہ دعا تمام تر خدا اور بندے کے درمیان کا معاملہ ہے۔ کسی شخص کی دعا کسی دوسرے شخص کو مغفرت نہیں دلاسکتی۔ اللہ تعالیٰ کے یہاں اصل قیمت ’’قلب سلیم‘‘ کی ہے۔ قلب سلیم سے مراد قلب صحیح یا پاک دل ہے یعنی وہ دل جو شرک اور نفاق اور حسد اور بغض کے جذبات سے پاک ہو۔ بالفاظ دیگر خدا نے پیدائشی طورپر جو دل آدمی کو دیا تھا وہی دل لے کر وہ خدا کے یہاں پہنچے۔ کوئی دوسرا دل لے کر وہ خدا کے یہاں حاضر نہ ہو۔