An-Naml • UR-TAZKIRUL-QURAN
﴿ وَأَلْقِ عَصَاكَ ۚ فَلَمَّا رَءَاهَا تَهْتَزُّ كَأَنَّهَا جَآنٌّۭ وَلَّىٰ مُدْبِرًۭا وَلَمْ يُعَقِّبْ ۚ يَٰمُوسَىٰ لَا تَخَفْ إِنِّى لَا يَخَافُ لَدَىَّ ٱلْمُرْسَلُونَ ﴾
“[And then He said:] “Now throw down thy staff!” But when he saw it move rapidly, as if it were a serpent, he drew back [in terror], and did not [dare to] return. [And God spoke to him again:] O Moses! Fear not - for, behold, no fear need the message-bearers have in My Presence,”
حضرت موسیٰ پہاڑ پر آگ کے ليے گئے تھے۔ مگر وہاں پہنچ کر معلوم ہوا کہ وہ پیغمبری کے ليے بلائے گئے ہیں۔ اللہ تعالیٰ جب اپنے کسی بندے کو خصوصی عطیہ دیتاہے تو اچانک اور غیر متوقع طورپر دیتاہے تاکہ وہ اس کو براہِ راست اللہ کی طرف سے سمجھے اور اس کے اندر زیادہ سے زیادہ شکر کا جذبہ پیدا ہو۔ حضرت موسیٰ کی قوم (بنی اسرائیل) اگرچہ اس وقت کے لحاظ سے ایک مسلم قوم تھی۔ مگر اب وہ بالکل بے جان ہوچکی تھی۔ دوسری طرف انھیں فرعون جیسے جابر حکمراں کے سامنے توحید کی دعوت پیش کرنا تھا۔ اس ليے اللہ تعالیٰ نے آغاز ہی میں آپ کو عصا کا معجزہ عطا فرمادیا۔ یہ عصا حضرت موسیٰ کے ليے ایک مستقل خدائی طاقت تھا۔ اس کے ذریعے سے فرعون کے مقابلہ میں 9 معجزات ظاہر ہوئے۔ بنی اسرائیل کے ليے ظاہر ہونے والے معجزات ان کے علاوہ تھے۔حضرت موسیٰ کے معجزات نے آخری حد تک آپ کی صداقت ثابت کردی تھی۔ اس کے باوجود فرعون اور اس کے ساتھیوں نے آپ کا اعتراف نہیں کیا۔ اس کی وجہ ان کا ظلم اور علو تھا۔ فرعون اور اس کے ساتھی اپنی آزادی پر قید لگانے کے ليے تیار نہ تھے۔ مزید یہ کہ وہ جانتے تھے کہ موسیٰ کی بات ماننا اپنی بڑائی کی نفی کرنا ہے۔ اور کون ہے جو اپنی بڑائی کی نفی کی قیمت پر سچائی کو مانے۔