Al-Qasas • UR-TAZKIRUL-QURAN
﴿ فَلَمَّآ أَنْ أَرَادَ أَن يَبْطِشَ بِٱلَّذِى هُوَ عَدُوٌّۭ لَّهُمَا قَالَ يَٰمُوسَىٰٓ أَتُرِيدُ أَن تَقْتُلَنِى كَمَا قَتَلْتَ نَفْسًۢا بِٱلْأَمْسِ ۖ إِن تُرِيدُ إِلَّآ أَن تَكُونَ جَبَّارًۭا فِى ٱلْأَرْضِ وَمَا تُرِيدُ أَن تَكُونَ مِنَ ٱلْمُصْلِحِينَ ﴾
“But then as soon as he was about to lay violent hands on the man who was their [common] enemy, the latter exclaimed: “O Moses, dost thou intend to slay me as thou didst slay another man yesterday? Thy sole aim is to become a tyrant in this land, for thou dost not care to be of those who would set things to rights!””
اگلے دن وہی اسرائیلی دوبارہ ایک قبطی سے لڑ رہا تھا۔ یہ اس بات کا واضح قرینہ تھاکہ یہ ایک جھگڑالو قسم کا آدمی ہے اور روزانہ کسی نہ کسی سے لڑتا رہتا ہے۔ چنانچہ اپنی قوم کا فرد ہونے کے باوجود حضرت موسیٰ نے اس کو مجرم ٹھہرایا۔ مذکورہ اسرائیلي کا مجرم ہونا اس واقعہ سے مزید ثابت ہوگیا کہ اس اسرائیلی نے جب دیکھا کہ حضرت موسیٰ آج اس کی مدد نہیں کررہے ہیں اور اس کی امید کے خلاف خود اسی کو برا کہہ رہے ہیں تو وہ کمینہ پن پر اتر آیا۔ اس نے غیر ذمہ دارانہ طور پر کل کے قتل کا راز کھول دیا جو ابھی تک کسی کے علم میں نہ آیا تھا۔ اسرائیلی کی زبان سے قاتل کا نام نکلا تو بہت سے لوگوں نے سن لیا۔ چند دن میںاس کی خبر ہر طرف پھیل گئی۔ یہاں تک کہ حکمرانوں میں موسیٰ کے قتل کے مشورے ہونے لگے۔ ایک نیک بخت آدمی کو اس کا پتہ چل گیا۔ وہ خفیہ طورپر حضرت موسیٰ سے ملااورکہا کہ اس وقت یہی بہتر ہے کہ آپ اس جگہ کو چھوڑ دیں چنانچہ آپ مصر سے نکل کر مَدْیَن کی طرف روانہ ہوگئے۔ مدین خلیج عَقبہ کے مغربی ساحل پر تھا اور فرعون کی سلطنت کے حدود سے باہر تھا۔