Al-Qasas • UR-TAZKIRUL-QURAN
﴿ فَسَقَىٰ لَهُمَا ثُمَّ تَوَلَّىٰٓ إِلَى ٱلظِّلِّ فَقَالَ رَبِّ إِنِّى لِمَآ أَنزَلْتَ إِلَىَّ مِنْ خَيْرٍۢ فَقِيرٌۭ ﴾
“So he watered [their flock] for them: and when he withdrew into the shade and prayed: “O my Sustainer! Verily, in dire need am I of any good which Thou mayest bestow upon me!””
حضرت موسیٰ کا یہ سفر گویا نامعلوم منزل کی طرف سفر تھا۔ ایسے حالات میں مومن کے دل کی جو کیفیت ہوتی ہے وہ پوری طرح آپ کے اوپر طاری تھی۔ آپ دعاؤں کے سایہ میں اپنا قدم آگے بڑھا رہے تھے۔ تقریباً دس دن کے سفر کے بعد مدین پہنچے۔ گمان غالب ہے کہ آپ بھوکے بھی ہوں گے۔ حضرت موسیٰ نے کمزوروں کی حمایت کے جذبہ کے تحت مدین کی دونوں لڑکیوں کی مدد کی۔ یہ واقعہ ان کے ليے لڑکیوں کے والد تک پہنچنے کا ذریعہ بنا۔ یہ بزرگ مدیان بن ابراہیم کی اولاد سے تھے اور حضرت موسیٰ اسحاق بن ابراہیم کی اولاد سے۔ اس اعتبار سے دونوں میں نسلی قربت بھی تھی۔ اس وقت حضرت موسیٰ کی زبان سے یہ دعا نکلی رَبِّ إِنِّي لِمَا أَنْزَلْتَ إِلَيَّ مِنْ خَيْرٍ فَقِيرٌ۔ یہ دعا بتاتی ہے کہ ایسے وقت مومن کا حال کیا ہوتا ہے۔ وہ اپنے معاملہ کو تمام تر اللہ پر ڈال دیتاہے۔ اس کو یقین ہوتا ہے کہ بندہ کو جو کچھ ملتا ہے خدا سے ملتا ہے، اور خیر وہی ہے جو اس کو خدا کی طرف سے ملے۔