Al-Qasas • UR-TAZKIRUL-QURAN
﴿ قَالَ إِنِّىٓ أُرِيدُ أَنْ أُنكِحَكَ إِحْدَى ٱبْنَتَىَّ هَٰتَيْنِ عَلَىٰٓ أَن تَأْجُرَنِى ثَمَٰنِىَ حِجَجٍۢ ۖ فَإِنْ أَتْمَمْتَ عَشْرًۭا فَمِنْ عِندِكَ ۖ وَمَآ أُرِيدُ أَنْ أَشُقَّ عَلَيْكَ ۚ سَتَجِدُنِىٓ إِن شَآءَ ٱللَّهُ مِنَ ٱلصَّٰلِحِينَ ﴾
“[After some time, the father] said: “Behold, I am willing to let thee wed one of these two daughters of mine on the understanding that thou wilt remain eight years in my service; and if thou shouldst complete ten [years], that would be [an act of grace] from thee, for I do not want to impose any hardship on thee: [on the contrary,] thou wilt find me, if God so wills, righteous in all my dealings.””
لڑکیاں اس دن معمول سے کچھ پہلے گھر پہنچ گئیں والد نے پوچھا تو انھوں نے بتایا کہ آج ایک مسافر نے ہماری بکریوں کو پہلے ہی پانی پلا دیا۔لڑکیوں کے والد نے کہا کہ پھر تم اس مسافر کو گھر کیوں نہ لائیں کہ وہ ہمارے ساتھ کھانا کھائے۔ چنانچہ ایک لڑکی دوبارہ کنویں پر گئی اور حضرت موسیٰ کوبلا کر لے آئی۔ چند دن کے تجربے نے بتایا کہ حضرت موسیٰ محنتی بھی ہیں اور امانت دار بھی۔ چنانچہ مذکورہ بزرگ نے اپنی بیٹی کی رائے سے اتفاق کرتے ہوئے حضرت موسیٰ کو اپنے یہاں مستقل خدمت کے ليے رکھ لیا۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ دونوں صفات، امانت اور قوت (honesty & hard working) تمام ضروری صفات کی جامع ہیں۔ آدمی کے انتخاب کے ليے معیار مقرر کرنا ہو تو ان دولفظوں سے بہتر کوئی معیار نہیں ہوسکتا۔بعد کو مذکورہ بزرگ نے اپنی ایک لڑکی کی شادی بھی حضرت موسیٰ سے کردی۔ تاہم چوں کہ اس وقت انھیں اپنے گھر اور جائداد کی دیکھ بھال کے ليے ایک مرد کی شدید ضرورت تھی، انھوں نے حضرت موسیٰ کو اس پر آمادہ کیا کہ وہ آٹھ سال یادس سال تک ان کے یہاں قیام کریں۔ اس کے بعد وہ جہاں جانا چاہیں جاسکتے ہیں۔