Al-Qasas • UR-TAZKIRUL-QURAN
﴿ وَقَالَ فِرْعَوْنُ يَٰٓأَيُّهَا ٱلْمَلَأُ مَا عَلِمْتُ لَكُم مِّنْ إِلَٰهٍ غَيْرِى فَأَوْقِدْ لِى يَٰهَٰمَٰنُ عَلَى ٱلطِّينِ فَٱجْعَل لِّى صَرْحًۭا لَّعَلِّىٓ أَطَّلِعُ إِلَىٰٓ إِلَٰهِ مُوسَىٰ وَإِنِّى لَأَظُنُّهُۥ مِنَ ٱلْكَٰذِبِينَ ﴾
“Whereupon Pharaoh said: “O you nobles! I did not know that you could have any deity other than myself Well, then, O Haman, kindle me a fire for [baking bricks of] clay, and then build me a lofty tower, that haply I may have a look at the god of Moses although, behold, I am convinced that he is of those who [always] tell lies!””
ایک شخص اپنے کو بڑا سمجھتاہو، اس کے سامنے ایک بظاہر معمولی آدمی آئے اور اس پر براہِ راست تنقید کرے تو وہ فوراً بپھر اٹھتا ہے۔ وہ اس کا استہزا کرتاہے اور اس کا مذاق اڑانے کے ليے طرح طرح کی باتیں کرتا ہے۔ یہی اس وقت فرعون نے حضرت موسیٰ کے مقابلہ میں کیا۔ ’’میں اپنے سوا کوئی معبود نہیں جانتا‘‘— کوئی سنجیدہ جملہ نہیںہے۔ ان الفاظ سے فرعون کا مقصود بیانِ حقیقت نہیں بلکہ تحقیر موسیٰ ہے۔ اسی طرح فرعون نے جب اپنے وزیر ہامان سے کہا کہ پختہ اینٹ تیار کرکے ایک اونچی عمارت بناؤ تاکہ میں آسمان میں جھانک کر موسیٰ کے خدا کو دیکھوں، تو یہ کوئی سنجیدہ حکم نہیں تھا۔ اس کا مطلب یہ نہیں تھا کہ واقعۃً وہ اپنے وزیر کے نام ایک تعمیری فرمان جاری کررہا ہے۔ یہ صرف حضرت موسیٰ کا استہزا تھا، نہ کی فی الواقع تعمیر مکان کا کوئی حکم۔