Al-Qasas • UR-TAZKIRUL-QURAN
﴿ وَلَقَدْ ءَاتَيْنَا مُوسَى ٱلْكِتَٰبَ مِنۢ بَعْدِ مَآ أَهْلَكْنَا ٱلْقُرُونَ ٱلْأُولَىٰ بَصَآئِرَ لِلنَّاسِ وَهُدًۭى وَرَحْمَةًۭ لَّعَلَّهُمْ يَتَذَكَّرُونَ ﴾
“And [then,] indeed, after We had destroyed those earlier generations [of sinners], We vouchsafed unto Moses [Our] revelation as a means of insight for men, and as a guidance and grace, so that they might bethink themselves [of Us].”
حضرت موسیٰ کی تحریک فرد انسانی میں ربانی انقلاب برپا کرنے کی تحریک تھی۔ آپ کا مدعا یہ تھا کہ آدمی اللہ سے ڈرے اور اللہ کا بندہ بن کر دنیا میں زندگی گزارے۔ آپ کا یہی پیغام دوسرے افراد کے ليے بھی تھا اور یہی اس فرد کے ليے بھی جو ملک کے تخت پر بیٹھا ہوا تھا۔ یہ ایک عام بات ہے کہ اختیار واقتدار پاکر آدمی گھمنڈ کی نفسیات میں مبتلا ہوجاتا ہے۔ یہی فرعون کا حال بھی تھا۔ حضرت موسیٰ نے فر عون کو ڈرایا کہ اگر تم متکبربن کر دنیا میں رہوگے تو خدا کی پکڑ میں آجاؤ گے۔مگر فرعون نے نصیحت قبول نہیں کی۔ نتیجہ یہ ہوا کہ اس کو ہلاک کردیاگیا۔ فرعون قدیم مشرکانہ تہذیب کا امام تھا۔ مشرکانہ تہذیب میں فرعون کو اونچا مقام حاصل تھا۔ مگر مشرکانہ تہذیب نہ صرف مصر سے بلکہ ساری دنیا سے ختم ہوگئی۔ اب دنیا کی آبادی میں زیادہ تر یا تو مسلمان ہیں یا یہودی يا عیسائی۔ اور یہ سب کے سب متفقہ طورپر فرعون کو لعنت زدہ سمجھتے ہیں۔ اب دنیا میں کوئی بھی فرعون کی عظمت کو ماننے والا نہیں۔