Al-Qasas • UR-TAZKIRUL-QURAN
﴿ وَلَوْلَآ أَن تُصِيبَهُم مُّصِيبَةٌۢ بِمَا قَدَّمَتْ أَيْدِيهِمْ فَيَقُولُوا۟ رَبَّنَا لَوْلَآ أَرْسَلْتَ إِلَيْنَا رَسُولًۭا فَنَتَّبِعَ ءَايَٰتِكَ وَنَكُونَ مِنَ ٱلْمُؤْمِنِينَ ﴾
“and [We have sent thee] lest they say [on Judgment Day], when disaster befalls them as an outcome of what their own hands have wrought, “O our Sustainer, if only Thou had sent an apostle unto us, we would have followed Thy messages, and would have been among those who believe!””
حضرت موسیٰ علیہ السلام نے قدیم مصریوں کے سامنے اپنا پیغام رسالت پیش کیا تو اسی کے ساتھ آپ نے معجزے بھی دکھائے۔ مگر ان لوگوں نے نہیں مانا اور کہہ دیا کہ یہ تو جادو ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قدیم عرب میں دلائل کی بنیاد پر حق کی دعوت پیش کی تو انھوںنے کہا کہ اگر یہ پیغمبر ہیں تو موسیٰ جیسے معجزے کیوں نہیں دکھاتے۔ یہ سب غیر سنجیدہ ذہن سے نکلی ہوئی باتیں ہیں۔ موجودہ دنیا میں حق کو ماننے کے ليے سب سے ضروری شرط یہ ہے کہ آدمی سنجیدہ ہو۔ جو شخص حق ا ور ناحق کے معاملہ میں سنجیدہ نہ ہو اس کو کوئی بھی چیز حق کے اعتراف پر مجبور نہیں کرسکتی۔ وہ ہر بار نئے عذر تلاش کرلے گا۔ وہ ہر بات کے جوا ب میں نئے الفاظ پالے گا۔