Al-Qasas • UR-TAZKIRUL-QURAN
﴿ فَإِن لَّمْ يَسْتَجِيبُوا۟ لَكَ فَٱعْلَمْ أَنَّمَا يَتَّبِعُونَ أَهْوَآءَهُمْ ۚ وَمَنْ أَضَلُّ مِمَّنِ ٱتَّبَعَ هَوَىٰهُ بِغَيْرِ هُدًۭى مِّنَ ٱللَّهِ ۚ إِنَّ ٱللَّهَ لَا يَهْدِى ٱلْقَوْمَ ٱلظَّٰلِمِينَ ﴾
“And since they cannot respond to this thy challenge, know that they are following only their own likes and dislikes: and who could be more astray than he who follows [but] his own likes and dislikes without any guidance from God? Verily, God does not grace with His guidance people who are given to evildoing!”
حق کے پیغام کو ماننے یا نہ ماننے کا جو اصل معیار ہے وہ یہ ہے کہ پیغام کو خود اس کے جوہر ذاتی کی بنیاد پر جانچا جائے۔ اگر وہ اپنی ذات میں برتر صداقت ہونا ثابت کررہا ہو تو یہی کافی ہے کہ اس کو مان لیا جائے۔ اس کے بعد ا س کو ماننے کے ليے کسی اور چیز کی ضرورت نہیں۔ صداقت کا جواب صداقت ہے۔ اگرآدمی صداقت کا انکار کرے اور اس کے جواب میں دوسری اعلیٰ تر صداقت نہ پیش کرسکے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ خواہش پرستی کی وجہ سے اس کا انکار کررہا ہے۔ جن لوگوں کا یہ حال ہو کہ وہ صداقت کو معقولیت کے ذریعہ رد نہ کرسکیں اور پھر بھی خواہش اور تعصب کے زیر اثر اس کو نہ مانیں وہ بدترین گمراہ لوگ ہیں۔ ایسے لوگ خدا کے یہاں ظالموں میں شمار ہوں گے۔