Al-Qasas • UR-TAZKIRUL-QURAN
﴿ وَقَالَ ٱلَّذِينَ أُوتُوا۟ ٱلْعِلْمَ وَيْلَكُمْ ثَوَابُ ٱللَّهِ خَيْرٌۭ لِّمَنْ ءَامَنَ وَعَمِلَ صَٰلِحًۭا وَلَا يُلَقَّىٰهَآ إِلَّا ٱلصَّٰبِرُونَ ﴾
“But those who had been granted true knowledge said: “Woe unto you! Merit in the sight of God is by far the best for any who attains to faith and does what is right: but none save the patient in adversity can ever achieve this [blessing].””
جس آدمی کے پاس دولت ہو اس کے گرد لازمی طورپر دنیا کی رونق جمع ہوجاتی ہے۔ اس کو دیکھ کر بہت سے نادان لوگ اس کے اوپر رشک کرنے لگتے ہیں۔ مگر جن لوگوں کو حقیقت کا علم حاصل ہوجائے ان کو یہ جاننے میں دیر نہیں لگتی کہ یہ محض چند دن کی رونق ہے اور جو چیز چند روزہ ہو اس کی کوئی قیمت نہیں۔ علمِ حقیقت اس دنیا میں سب سے زیادہ قیمتی چیز ہے۔ مگر علمِ حقیقت کا مالک بننے کےلیے صبر کی صلاحیت درکار ہوتی ہے۔ یعنی خارجی حالات کادباؤ قبول نہ کرتے ہوئے اپنا ذہن بنانا۔ظاہری چیزوں سے غیر متاثر رہ کر سوچنا۔ وقتی کشش کی چیز کو نظر انداز کرکے رائے قائم کرنا۔ یہ بلاشبہ صبر کی مشکل ترین قسم ہے، مگر اسی مشکل ترین امتحان میں پورا اترنے کے بعد آدمی کو وہ چیز ملتی ہے جس کو علم اور حکمت کہا جاتا ہے۔