Al-Ankaboot • UR-TAZKIRUL-QURAN
﴿ قُلْ كَفَىٰ بِٱللَّهِ بَيْنِى وَبَيْنَكُمْ شَهِيدًۭا ۖ يَعْلَمُ مَا فِى ٱلسَّمَٰوَٰتِ وَٱلْأَرْضِ ۗ وَٱلَّذِينَ ءَامَنُوا۟ بِٱلْبَٰطِلِ وَكَفَرُوا۟ بِٱللَّهِ أُو۟لَٰٓئِكَ هُمُ ٱلْخَٰسِرُونَ ﴾
“Say [unto those who will not believe]: “God is witness enough between me and you! He knows all that is in the heavens and on earth; and they who are bent on believing in what is false and vain, and thus on denying God - it is they, they who shall be the losers!””
جو لوگ کہتے تھے کہ پیغمبر اسلام کو اس طرح کی نشانیاں کیوں نہیں دی گئیں جیسی نشانیاں مثال کے طورپر موسیٰ کو دی گئی تھیں۔ فرمایا کہ نشانیاں اللہ کے پاس ہیں۔ یعنی نشانیوں (معجزے) کا تعلق خدا سے ہے، نہ کہ پیغمبر سے۔ پیغمبر کی دعوت کا اصل انحصار دلائل پر ہوتاہے۔ پیغمبر ہمیشہ دلائل کے زور پر اپنی دعوت پیش کرتا ہے۔ البتہ دوسرے مصالح کے تحت خدا کبھی کسی پیغمبر کو نشانی (معجزہ) دے دیتاہے اور کبھی نہیں دیتا۔ ایمان ایک شعوری واقعہ ہے۔ وہی ایمان ایمان ہے جو دلیل سے مطمئن ہو کر کسی بندہ کے دل میں ابھرا ہو۔ جو شخص دلیل کی روشنی میں جانچ کر کسی چیز کو مانے وہ حق پرست ہے اور جو شخص دوسری غیرمتعلق بحثیں نکالے وہ باطل پرست۔