Al-Ankaboot • UR-TAZKIRUL-QURAN
﴿ وَوَصَّيْنَا ٱلْإِنسَٰنَ بِوَٰلِدَيْهِ حُسْنًۭا ۖ وَإِن جَٰهَدَاكَ لِتُشْرِكَ بِى مَا لَيْسَ لَكَ بِهِۦ عِلْمٌۭ فَلَا تُطِعْهُمَآ ۚ إِلَىَّ مَرْجِعُكُمْ فَأُنَبِّئُكُم بِمَا كُنتُمْ تَعْمَلُونَ ﴾
“Now [among the best of righteous deeds which] We have enjoined upon man [is] goodness towards his parents; yet [even so,] should they endeavour to make thee ascribe divinity, side by side with Me, to something which thy mind cannot accept [as divine], obey then, not: [for] it is unto Me that you all must return, whereupon I shall make you [truly] understand [the right and wrong of] all that you were doing [in life].”
انسان پر تمام مخلوقات میں سب سے زیادہ جس کا حق ہے وہ اس کے ماں باپ ہیں مگر ہر چیز کی ایک حد ہوتی ہے، اسی طرح ماں باپ کے حقوق کی بھی ایک حد ہے۔ اور حدیث کے الفاظ میں وہ حد یہ ہے کہ خالق کی نافرمانی میں کسی مخلوق کی اطاعت نہیں (لَا طَاعَةَ لِمَخْلُوقٍ فِي مَعْصِيَةِ الْخَالِقِ) المعجم الکبیر للطبرانی، حدیث نمبر 381 ۔ ماں باپ کے حقوق اسی وقت تک قابل لحاظ ہیں جب تک وہ خدا کے حقوق سے نہ ٹکرائیں۔ ماں باپ کا حکم جب خدا کے حکم سے ٹکرانے لگے تو اس وقت ماں باپ کا حکم نہ ماننا اتنا ہی ضروری ہوجائے گا جتنا عام حالات میں ماں باپ کا حکم ماننا ضروری ہوتاہے۔ اسلام میں ماں باپ کے حقوق سے مراد ماں باپ کی خدمت ہے، نہ کہ ماں باپ کی عبادت۔