Aal-i-Imraan • UR-TAZKIRUL-QURAN
﴿ وَٱعْتَصِمُوا۟ بِحَبْلِ ٱللَّهِ جَمِيعًۭا وَلَا تَفَرَّقُوا۟ ۚ وَٱذْكُرُوا۟ نِعْمَتَ ٱللَّهِ عَلَيْكُمْ إِذْ كُنتُمْ أَعْدَآءًۭ فَأَلَّفَ بَيْنَ قُلُوبِكُمْ فَأَصْبَحْتُم بِنِعْمَتِهِۦٓ إِخْوَٰنًۭا وَكُنتُمْ عَلَىٰ شَفَا حُفْرَةٍۢ مِّنَ ٱلنَّارِ فَأَنقَذَكُم مِّنْهَا ۗ كَذَٰلِكَ يُبَيِّنُ ٱللَّهُ لَكُمْ ءَايَٰتِهِۦ لَعَلَّكُمْ تَهْتَدُونَ ﴾
“And hold fast, all together, unto the bond with God, and do not draw apart from one another. And remember the blessings which God has bestowed upon you: how, when you were enemies, He brought your hearts together, so that through His blessing you became brethren; and [how, when] you were on the brink of a fiery abyss. He saved you from it. In this way God makes clear His messages unto you, so that you might find guidance,”
دنیا آزمائش کی جگہ ہے۔ یہاں ہر وقت یہ خطرہ ہے کہ شیطان آدمی کے ایمان کو اچک لے جائے اور فرشتے اس کی روح اس حال میں قبض کریں کہ وہ ایمان سے خالی ہو۔اس ليے ضروری ہے کہ آدمی ہر وقت باہوش رہے، وہ اپنے آپ پر نگراں بن جائے۔ ایمان سے دور ہونے کی ایک صورت وہ ہے جب کہ دین کے اجزاء میں تبدیلی کرکے اہم کو غیر اہم اور غیر اہم کو اہم بنا دیا جائے۔ دین کی اصل رسّی تقویٰ ہے۔ یعنی اللہ سے ڈرنا اور مرتے دم تک اپنے ہر معاملہ میں وہی رویہ اختیار کرنا جو اللہ کے سامنے جواب دہی کے تصور سے بنتا ہو۔ یہی صراطِ مستقیم ہے۔ اس سے انحراف یہ ہے کہ ’’تقویٰ‘‘ کے بجائے، کسی اور چیز کو مدارِ دین سمجھ لیا جائے اور اس پراس طرح زور دیا جائے جس طرح خوف خدا اور فکر آخرت پر دیا جاتا ہے۔ جب بھی دین میں اس قسم کی تبدیلی کی جاتی ہے تو اس کا لازمی نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ ملّت کے درمیان اختلاف پيدا هو جاتا ہے۔ کوئی ایک ضمنی چیز پر زور دیتا ہے تو کوئی دوسری ضمنی چیز پر، اور اس طرح ملت فرقے فرقے میں بٹ کر رہ جاتی ہے۔ اول الذکر سے ایک اللہ توجہ کا مرکز بنتا ہے اور ثانی الذکر سے متفرق مسائل توجہ کا مرکز بن جاتے ہیں۔ جب دین میں سارا زور وتاکید تقویٰ (اللہ سے ڈرنے) پر دیا جائے تو اس سے باہمی اتفاق وجود میںآتا ہے اور جب اس کے سوا دوسری چیزوں پر زور دیا جانے لگے تو اس سے باہمی اختلاف کی وہ برائی پیدا ہوتی ہے جو لوگوں کو جہنم کے کنارے پہنچا دیتی ہے۔ کسی گروہ کے اندر اختلاف دنیا میں بھی عذاب ہے اور آخرت میںبھی عذاب۔ اسلام سے پہلے مدینہ میں دو قبیلے تھے— اوس اور خزرج۔ یہ دونوں عرب قبیلے تھے مگر وہ آپس میں لڑتے رہتے تھے۔ ان باہمی لڑائیوں نے ان کو کمزور کردیا تھا۔ جب وہ اسلام کے دائرہ میں داخل ہوئے تو ان کی لڑائیاں ختم ہوگئیں، وہ بھائی بھائی کی طرح مل کر رہنے لگے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ غیر اسلام میں ہر آدمی اپنا وفادار رہتا ہے اور اسلام میں صرف ایک اللہ کا۔ جس سماج میں لوگ اپنے یا اپنے گروہ کے وفادار ہوں وہاں قدرتی طورپر کئی وفاداریاں وجود میں آتی ہیں۔ اور کئی وفاداریوں کے عملی نتیجہ ہی کا نام اختلاف اور ٹکراؤ ہے۔ اس کے برعکس، جس معاشرہ میں تمام لوگ ایک خدا کے وفادار بن جائیں وہاں سب کا رخ ایک مرکز کی طرف ہوجاتا ہے، سب ایک رسّی سے بندھ جاتے ہیں۔ اِس طرح باہمی اختلاف اور ٹکراؤ کے اسباب اپنے آپ ختم ہوجاتے ہیں۔