slot qris slot gacor terbaru slot gacor terbaik slot dana link slot gacor slot deposit qris slot pulsa slot gacor situs slot gacor slot deposit qris slot qris bokep indo xhamster/a> jalalive/a>
| uswah-academy
WhatsApp Book A Free Trial
القائمة

🕋 تفسير الآية 107 من سورة سُورَةُ آلِ عِمۡرَانَ

Aal-i-Imraan • UR-TAZKIRUL-QURAN

﴿ وَأَمَّا ٱلَّذِينَ ٱبْيَضَّتْ وُجُوهُهُمْ فَفِى رَحْمَةِ ٱللَّهِ هُمْ فِيهَا خَٰلِدُونَ ﴾

“But as for those with faces shining, they shall be within God's grace, therein to abide.”

📝 التفسير:

’’تم میں ایک گروہ ہو جو دعوت الی الخیر کا کام کرے اور نیکیوں کا حکم دے اور برائیوں سے روکے‘‘ یہ ارشاد بیک وقت دو باتوں کو بتارہا ہے۔ ایک کا تعلق خواص سے ہے اوردوسرے کا تعلق عوام سے۔ امت کے خواص کے اندر یہ روح ہونی چاہيے کہ وہ امت کے اندر برائی کو برداشت نہ کریں، وہ نیکی اور بھلائی کے لیے تڑپنے والے ہوں۔ ان کا یہ جذبۂ اصلاح انھیں مجبور کرے گا کہ وہ لوگوں کہ احوال سے غیر متعلق نہ رہیں، وہ اپنے بھائیوں کو نیکی کی راہ پر چلنے کے لیے اکسائیں اور انھیں برائی سے دور رہنے کی تلقین کریں۔ تاہم اس عمل کی کامیابی کے لیے امت کے عوام کے اندر اطاعت کا جذبہ ہونا بھی لازماً ضروری ہے۔ عوام کو چاہیے کہ وہ اپنے خواص کا احترام کریں۔ وہ ان کے کہنے سے چلیں اور جہاں وہ روکیں وہاں وہ رک جائیں۔ وہ اپنے آپ کو اپنے دینی ذمہ داروں کے حوالے کردیں۔ جس مسلم گروہ میں خواص اور عوام کا یہ حال ہو وہی فلاح پانے والا گروہ ہے۔ سمع وطاعت کی اس فضا ہی میں کسی معاشرہ کے اندر وہ اوصاف جنم لیتے ہیں جو اس کو دنیا میںطاقت ور اور آخرت میںنجات یافتہ بناتے ہیں۔ خواص کے اندر اس روح کے زندہ ہونے کا یہ فائدہ ہے کہ ان کی ساری توجہ خیر، بالفاظ دیگر اساسات دین پر مرتکز رہتی ہے۔ فرعی اور جزئی مسائل میں موشگافیاں کرنے کا ان کے پاس وقت ہی نہیں ہوتا۔ جو لوگ خدا کی عظمتوں کے نقیب بنیں اور آخرت کے منذراور مبشربن کر اٹھیں ان کے پاس اتنا وقت ہی نہیں ہوتا کہ ظاہری مسائل کی جزئیات میں اپنی مہارت دکھائیں۔ اس کے ساتھ امربالمعروف اور نہی عن المنکر کا کام انھیں حقیقی مسائل کی اصلاح میں لگا دیتا ہے۔ فرضی اور قیاسی مسائل میں ذہنی ورزش کرنا انھیں اسی طرح بے معنی اور بے فائدہ معلوم ہونے لگتا ہے جس طرح ایک کسان کو شطرنج کا کھیل۔ عوام کو اس نظام اطاعت پر اپنے کو راضی کرنے کا یہ فائدہ ملتا ہے کہ وہ ٹکڑوں ٹکڑوں میں بٹنے سے بچ جاتے ہیں۔ ایک حکم کے تحت چلنے کے نتیجے میں سب مل کر ایک ہوجاتے ہیں۔ اتحاد واتفاق ان کی عام صفت بن جاتی ہے اور بلا شبہ اتحاد و اتفاق سے زیادہ بڑی طاقت اس دنیا میں کوئی نہیں۔