slot qris slot gacor terbaru slot gacor terbaik slot dana link slot gacor slot deposit qris slot pulsa slot gacor situs slot gacor slot deposit qris slot qris bokep indo xhamster/a> jalalive/a>
| uswah-academy
WhatsApp Book A Free Trial
القائمة

🕋 تفسير الآية 118 من سورة سُورَةُ آلِ عِمۡرَانَ

Aal-i-Imraan • UR-TAZKIRUL-QURAN

﴿ يَٰٓأَيُّهَا ٱلَّذِينَ ءَامَنُوا۟ لَا تَتَّخِذُوا۟ بِطَانَةًۭ مِّن دُونِكُمْ لَا يَأْلُونَكُمْ خَبَالًۭا وَدُّوا۟ مَا عَنِتُّمْ قَدْ بَدَتِ ٱلْبَغْضَآءُ مِنْ أَفْوَٰهِهِمْ وَمَا تُخْفِى صُدُورُهُمْ أَكْبَرُ ۚ قَدْ بَيَّنَّا لَكُمُ ٱلْءَايَٰتِ ۖ إِن كُنتُمْ تَعْقِلُونَ ﴾

“O YOU who have attained to faith! Do not take for your bosom-friends people who are not of your kind. They spare no effort to corrupt you; they would love to see you in distress. Vehement hatred has already come into the open from out of their mouths, but what their hearts conceal is yet worse. We have indeed made the signs [thereof] clear unto you, if you would but use your reason.”

📝 التفسير:

مسلمان اسی خدائی دین پر ایمان لائے تھے جو سابق اہل کتاب (یہود) کو اپنے نبیوں کے ذریعہ ملا تھا۔ دونوں کا دین اپنی اصل حقیقت کے اعتبار سے ایک تھا۔ مگر یہود مسلمانوں کے اس قدر دشمن ہوگئے کہ مسلمان اپنی ساری خصوصیات کے باوجود ان کے نزدیک ایک کلمۂ خیر کے بھی حق دار نہ تھے۔ حتیٰ کہ مسلمانوں کو اگر کوئی تکلیف پہنچ جاتی تو وہ دل ہی دل میں خوش ہوتے۔ گویا وہ ان کو انسانی ہمدردی کا مستحق بھی نہیں سمجھتے تھے۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ یہود نے انبیاء بنی اسرائیل کی طرف منسوب کرکے ایک خود ساختہ دین بنا رکھا تھا اور اس کے بل پر عوام میں قیادت کا مقام حاصل کيے ہوئے تھے۔ خدا کے دین میں ساری توجہ خدا کی طرف رہتی ہے۔ جب کہ خود ساختہ دین میں لوگوں کی توجہ ان افراد کی طرف لگ جاتی ہے جو اس خود ساختہ دین کے خالق اور شارح ہوں۔ایسے لوگ سچے دین کی دعوت کو کبھی گوارا نہیں کرتے۔ کیوں کہ ان کو نظر آتا ہے کہ وہ ان کو ان کے مقام عظمت سے ہٹا رہی ہے۔ جب ایسی صورت پیش آئے تو اللہ کے سچے بندوں کا کام یہ ہے کہ وہ منفی رد عمل سے بچیں اور مکمل طورپر صبر وتقویٰ پر قائم رہیں۔ صبر کا مطلب ہے ہر حال میں اپنے آپ کو حق کا پابند رکھنا، اور تقویٰ یہ ہے کہ فیصلہ کن طاقت صرف اللہ کو سمجھا جائے، نہ کہ کسی اور کو۔ مسلمان اگر اس قسم کے مثبت رویہ کا ثبوت دیں تو کسی کی دشمنی ان کو ذرا بھی نقصان نہ پہنچائے گی خواہ دشمن مقدار میں کتنے ہی زیادہ ہوں۔ تاہم اس کے ساتھ مسلمانوں کو حقیقت پسند بھی بننا چاہیے۔ ان کو اپنے دوست اور دشمن کے درمیان تمیز کرنا چاہیے تاکہ کوئی ان کی صاف دلی کا ناجائز فائدہ نہ اٹھاسکے۔ مسلمانوں کے دل میں یہود کے لیے محبت ہونا اور یہود کے دل میں مسلمانوں کے لیے محبت نہ ہونا ظاہر کرتا ہے کہ دونوں میں سے کون حق پر ہے، اور کون ناحق پر۔ اللہ سراپا رحم اور عدل ہے۔ وہ تمام انسانوں کا خالق ومالک ہے۔ اس لیے جو شخص حقیقی طورپر اللہ کو پالیتا ہے اس کا سینہ تمام خدا کے بندوں کے لیے کھل جاتا ہے۔ اس کے لیے تمام انسان یکساں طور پر اللہ کی عیال بن جاتے ہیں۔ وہ ہر ایک کے لیے وہی چاہنے لگتا ہے، جو وہ اپنے لیے چاہتا ہے۔ مگر جو لوگ اللہ کو حقیقی طورپر پائے ہوئے نہ ہوں جنھوں نے اپنی مرضی کو اللہ کی مرضی میں نہ ملایا ہو وہ صرف اپنی ذات کی سطح پر جیتے ہیں۔ ان کا سرمایۂ حیات اپنے فائدے اور اپنے گروہی تعصبات ہوتے ہیں۔ ان کا یہ مزاج ان کو ایسے لوگوں کا دشمن بنا دیتا ہے جو ان کو اپنے مفاد کے خلاف نظر آئیں، جو ان کے اپنے گروہ میں شامل نہ ہوں۔ خدا کو مانتے ہوئے وہ بھول جاتے ہیں کہ یہ دنیا خدا کی دنیا ہے۔ یہاں کسی کی کوئی تدبیر اللہ کی مشیّت کے بغیر مؤثر نہیں ہوسکتی۔