slot qris slot gacor terbaru slot gacor terbaik slot dana link slot gacor slot deposit qris slot pulsa slot gacor situs slot gacor slot deposit qris slot qris bokep indo
| uswah-academy
WhatsApp Book A Free Trial
القائمة

🕋 تفسير الآية 126 من سورة سُورَةُ آلِ عِمۡرَانَ

Aal-i-Imraan • UR-TAZKIRUL-QURAN

﴿ وَمَا جَعَلَهُ ٱللَّهُ إِلَّا بُشْرَىٰ لَكُمْ وَلِتَطْمَئِنَّ قُلُوبُكُم بِهِۦ ۗ وَمَا ٱلنَّصْرُ إِلَّا مِنْ عِندِ ٱللَّهِ ٱلْعَزِيزِ ٱلْحَكِيمِ ﴾

“And God ordained this [to be said by His Apostle] only as a glad tiding for you, and that your hearts should thereby be set at rest - since no succour can come from any save God, the Almighty, the Truly Wise -”

📝 التفسير:

یہ آیتیں جنگ احد (۳ ھ) کے بعد نازل ہوئیں۔ احد کی جنگ میں دشمنوں کی تعداد تین ہزار تھی۔ مسلمانوں کی طرف سے ایک ہزار آدمی مقابلہ کے لیے نکلے تھے۔ مگر راستہ میں عبد اللہ بن ابی اپنے تین سو ساتھیوں کو لے کر الگ ہوگیا۔ اس واقعہ سے کچھ انصاری مسلمانوںمیں پست ہمتی پیدا ہوئی مگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یاد دلایا کہ ہم اپنے بھروسہ پر نہیں بلکہ اللہ کے بھروسہ پر نکلے ہیں تو اللہ نے اس حقیقت کو سمجھنے کے لیے ان مسلمانوں کے سینے کھول ديے۔ مومن کے اندر اگر حالات کی شدت سے وقتی کمزوری پیدا ہوجائے تو ایسے وقت میں اللہ اس کو تنہا چھوڑنہیں دیتا بلکہ اس کا مدد گار بن کر دوبارہ اس کو ایمان کی حالت پر جما دیتا ہے۔ اللہ کی یہی مدد اجتماعی سطح پر اس طرح ہوئی کہ احد کی لڑائی میں مسلمانوں کی ایک کمزوری سے فائدہ اٹھا کر دشمن ان کے اوپر غالب آگئے اب دشمن فوج کے لیے پورا موقع تھا کہ وہ شکست کے بعد مسلمانوں کی طاقت کو پوری طرح کچل ڈالے۔ مگر فوجی تاریخ کا یہ حیرت انگیز واقعہ ہے کہ دشمن فوج فتح کے باوجود میدان جنگ کو چھوڑ کر واپس چلی گئی۔ یہ اللہ کی خصوصی مدد تھی کہ اس نے دشمن کے رخ کو ’’مدینہ‘‘ کے بجائے ’’مکہ‘‘ کی طرف موڑ دیا۔ حتی کہ جو مغلوب تھے انھوں نے غالب آنے والوں کا پیچھا کیا۔ مومن کا مزاج یہ ہونا چاہیے کہ وہ تعداد یا اسباب کی کمی سے نہ گھبرائے۔ تعداد کم ہو تو یقین کرے کہ اللہ اپنے فرشتوں کو بھیج کر بھی تعداد کی کمی پوری کردے گا۔ سامان کم ہو تو وہ بھروسہ رکھے کہ اللہ اپنی طرف سے ایسی صورتیں پیدا کرے گا جو اس کے لیے سامان کی کمی کی تلافی بن جائے۔ کامیابی کا دارومدار مادی اسباب پر نہیں بلکہ صبر اور تقویٰ پر ہے۔ جو لوگ اللہ سے ڈریں اور اللہ پر بھروسہ رکھیں ان کے حق میں اللہ کی مدد کی دو صورتیں ہیں۔ ایک، ان کے مخالفین کے ایک حصہ کو کاٹ لینا۔ دوسرے، مخالفین کو شکست دے کر انھیں مغلوب کرنا۔ پہلی کامیابی دعوت کی راہ سے آتی ہے۔ فریقِ مخالف کے جن افراد میں اللہ کچھ زندگی پاتا ہے ان کے اوپر دین کی حقانیت کو روشن کردیتاہے۔ وہ باطل کی صف کو چھوڑ کر حق کی صف میں شامل ہوجاتے ہیں اور اس طرح وه فریقِ مخالف کی کمزوری اور اہلِ ایمان کی قوت کا باعث بنتے ہیں۔ دوسری صورت میں اللہ اہلِ ایمان کو قوت اور حوصلہ دیتا ہے اور ان کی خصوصی مدد کرکے ان کو فریقِ مخالف پر غالب کردیتا ہے۔