Aal-i-Imraan • UR-TAZKIRUL-QURAN
﴿ وَلِلَّهِ مَا فِى ٱلسَّمَٰوَٰتِ وَمَا فِى ٱلْأَرْضِ ۚ يَغْفِرُ لِمَن يَشَآءُ وَيُعَذِّبُ مَن يَشَآءُ ۚ وَٱللَّهُ غَفُورٌۭ رَّحِيمٌۭ ﴾
“whereas unto God belongs all that is in the heavens and all that is on earth: He forgives whom He wills, and He chastises whom He wills; and God is much-forgiving, a dispenser of grace.”
یہ آیتیں جنگ احد (۳ ھ) کے بعد نازل ہوئیں۔ احد کی جنگ میں دشمنوں کی تعداد تین ہزار تھی۔ مسلمانوں کی طرف سے ایک ہزار آدمی مقابلہ کے لیے نکلے تھے۔ مگر راستہ میں عبد اللہ بن ابی اپنے تین سو ساتھیوں کو لے کر الگ ہوگیا۔ اس واقعہ سے کچھ انصاری مسلمانوںمیں پست ہمتی پیدا ہوئی مگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یاد دلایا کہ ہم اپنے بھروسہ پر نہیں بلکہ اللہ کے بھروسہ پر نکلے ہیں تو اللہ نے اس حقیقت کو سمجھنے کے لیے ان مسلمانوں کے سینے کھول ديے۔ مومن کے اندر اگر حالات کی شدت سے وقتی کمزوری پیدا ہوجائے تو ایسے وقت میں اللہ اس کو تنہا چھوڑنہیں دیتا بلکہ اس کا مدد گار بن کر دوبارہ اس کو ایمان کی حالت پر جما دیتا ہے۔ اللہ کی یہی مدد اجتماعی سطح پر اس طرح ہوئی کہ احد کی لڑائی میں مسلمانوں کی ایک کمزوری سے فائدہ اٹھا کر دشمن ان کے اوپر غالب آگئے اب دشمن فوج کے لیے پورا موقع تھا کہ وہ شکست کے بعد مسلمانوں کی طاقت کو پوری طرح کچل ڈالے۔ مگر فوجی تاریخ کا یہ حیرت انگیز واقعہ ہے کہ دشمن فوج فتح کے باوجود میدان جنگ کو چھوڑ کر واپس چلی گئی۔ یہ اللہ کی خصوصی مدد تھی کہ اس نے دشمن کے رخ کو ’’مدینہ‘‘ کے بجائے ’’مکہ‘‘ کی طرف موڑ دیا۔ حتی کہ جو مغلوب تھے انھوں نے غالب آنے والوں کا پیچھا کیا۔ مومن کا مزاج یہ ہونا چاہیے کہ وہ تعداد یا اسباب کی کمی سے نہ گھبرائے۔ تعداد کم ہو تو یقین کرے کہ اللہ اپنے فرشتوں کو بھیج کر بھی تعداد کی کمی پوری کردے گا۔ سامان کم ہو تو وہ بھروسہ رکھے کہ اللہ اپنی طرف سے ایسی صورتیں پیدا کرے گا جو اس کے لیے سامان کی کمی کی تلافی بن جائے۔ کامیابی کا دارومدار مادی اسباب پر نہیں بلکہ صبر اور تقویٰ پر ہے۔ جو لوگ اللہ سے ڈریں اور اللہ پر بھروسہ رکھیں ان کے حق میں اللہ کی مدد کی دو صورتیں ہیں۔ ایک، ان کے مخالفین کے ایک حصہ کو کاٹ لینا۔ دوسرے، مخالفین کو شکست دے کر انھیں مغلوب کرنا۔ پہلی کامیابی دعوت کی راہ سے آتی ہے۔ فریقِ مخالف کے جن افراد میں اللہ کچھ زندگی پاتا ہے ان کے اوپر دین کی حقانیت کو روشن کردیتاہے۔ وہ باطل کی صف کو چھوڑ کر حق کی صف میں شامل ہوجاتے ہیں اور اس طرح وه فریقِ مخالف کی کمزوری اور اہلِ ایمان کی قوت کا باعث بنتے ہیں۔ دوسری صورت میں اللہ اہلِ ایمان کو قوت اور حوصلہ دیتا ہے اور ان کی خصوصی مدد کرکے ان کو فریقِ مخالف پر غالب کردیتا ہے۔