Aal-i-Imraan • UR-TAZKIRUL-QURAN
﴿ أُو۟لَٰٓئِكَ جَزَآؤُهُم مَّغْفِرَةٌۭ مِّن رَّبِّهِمْ وَجَنَّٰتٌۭ تَجْرِى مِن تَحْتِهَا ٱلْأَنْهَٰرُ خَٰلِدِينَ فِيهَا ۚ وَنِعْمَ أَجْرُ ٱلْعَٰمِلِينَ ﴾
“These it is who shall have as their reward forgiveness from their Sustainer, and gardens through which running waters flow, therein to abide: and how excellent a reward for those who labour!”
سودی کاروبار زرپرستی کی آخری بدترین شکل ہے۔ جو شخص زرپرستی میں مبتلا ہو وہ رات دن اس فکر میں رہتا ہے کہ کس طرح اس کا مال دونا اور چوگنا ہو۔ وہ دنیا کامال حاصل کرنے کی طرف دوڑ نے لگتا ہے۔ حالاں کہ صحیح بات یہ ہے کہ آدمی آخرت کی جنت کی طرف دوڑے اور اللہ کی رحمت ونصرت کا زیادہ سے زیادہ حریص ہو۔ آدمی اپنا مال اس لیے بڑھانا چاہتا ہے کہ دنیا میں اس کو عزت حاصل ہو، دنیامیں اس کے لیے شان دار زندگی کی ضمانت ہوجائے۔ مگر موجودہ دنیا کی عزت وکامیابی کی کوئی حقیقت نہیں۔ اصل اہمیت کی چیز جنت ہے جس کی خوشیاں اور لذّتیں بے حساب ہیں۔ عقلمند وہ ہے جو اس جنت کی طرف دوڑے۔ جنت کی طرف دوڑنا یہ ہے کہ آدمی اپنے مال کو زیادہ سے زیادہ اللہ کی راہ میں دے۔ دنیوی کامیابی کا ذریعہ مال کو ’’بڑھانا‘‘ ہے اور اخروی کامیابی کو حاصل کرنے کا ذریعہ مال کو ’’گھٹانا‘‘ — پہلی قسم کے لوگوں کا سرمایہ اگر مال کی محبت ہے تو دوسرے لوگوں کا سرمایہ اللہ اور رسول کی محبت۔ پہلی قسم کے لوگوں کو اگر دنیا کے نفع کا شوق ہوتا ہے تو دوسری قسم کے لوگوں کو آخرت کے نفع كا۔ پہلی قسم کے لوگوں کو دنیا کے نقصان کا ڈر لگا رہتا ہے اور دوسری قسم کے لوگوں کو آخرت کے نقصان کا۔ جو لوگ اللہ سے ڈرتے ہیں ان کے اندر ’’احسان‘‘ کا مزاج پیدا ہوجاتاہے۔ یعنی جو کام کریں اس طرح کریں کہ وہ اللہ کی نظر میں زیادہ سے زیادہ پسندیدہ قرار پائے۔ وہ آزاد زندگی کے بجائے پابند زندگی گزارتے ہیں۔ خدا کے دین کی ضرورت کو وہ اپنی ضرورت بنا لیتے ہیں اور اس کے لیے ہر حال میں خرچ کرتے ہیں، خواہ ان کے پاس کم ہو یا زیادہ۔ ان کو جب کسی پر غصہ آجائے تو وہ اس کو اندر ہی اندر برداشت کرلیتے ہیں۔ کسی سے شکایت ہو تو اس سے بدلہ لینے کے بجائے اس کو معاف کردیتے ہیں۔ غلطیاں ان سے بھی ہوتی ہیں مگر وہ وقتی ہوتی ہیں۔ غلطی کے بعد وہ فوراً چونک پڑتے ہیں اور دوبارہ اللہ کی طرف متوجہ ہوجاتے ہیں۔ وہ بیتاب ہو کر اللہ کو پکارنے لگتے ہیں کہ وہ ان کو معاف کردے اور ان كي غلطيوں پر اپنی رحمتوں کا پردہ ڈال دے۔ قرآن میں جو بات لفظی طورپر بتائی گئی ہے وہ تاریخ میں عمل کی زبان میں موجود ہے۔ مگر نصیحت وہی پکڑتے ہیں جو نصیحت کی طلب رکھتے ہوں۔