slot qris slot gacor terbaru slot gacor terbaik slot dana link slot gacor slot deposit qris slot pulsa slot gacor situs slot gacor slot deposit qris slot qris bokep indo
| uswah-academy
WhatsApp Book A Free Trial
القائمة

🕋 تفسير الآية 142 من سورة سُورَةُ آلِ عِمۡرَانَ

Aal-i-Imraan • UR-TAZKIRUL-QURAN

﴿ أَمْ حَسِبْتُمْ أَن تَدْخُلُوا۟ ٱلْجَنَّةَ وَلَمَّا يَعْلَمِ ٱللَّهُ ٱلَّذِينَ جَٰهَدُوا۟ مِنكُمْ وَيَعْلَمَ ٱلصَّٰبِرِينَ ﴾

“Do you think that you could enter paradise unless God takes cognizance of your having striven hard [in His cause], and takes cognizance of your having been patient in adversity?”

📝 التفسير:

ایمان لانا گویا اللہ کے لیے جینے اور اللہ کے لیے مرنے کا اقرار کرنا ہے۔ جو لوگ اس طرح مومن بنیں ان کے لیے اللہ کا وعدہ ہے کہ وہ ان کو دنیا میں غلبہ اور آخرت میں جنت دے گا اور ان کو یہ اہم ترین اعزاز عطا کرے گا کہ جن لوگوں نے دنیا میںان کو رد کردیا تھا ان کے اوپر ان کو اپنی عدالت میں گواہ بنائے اور ان کی گواہی کی بنیاد پر ان کے مستقل انجام کا فیصلہ کرے۔ مگر یہ مقام محض لفظی اقرار سے نہیں مل جاتا اس کے لیے ضروری ہے کہ آدمی صبر اور جہاد کی سطح پر اپنے سچے ہونے کا ثبوت دے۔ مومن خواہ اپنی ذاتی زندگی کو ایمان واسلام پر قائم کرے یا وہ دوسروں کے سامنے خدا کے دین کا گواہ بن کر کھڑا ہو، ہرحال میں اس کو دوسروں کی طرف سے مشکلات اور رکاوٹیں پیش آتی ہیں۔ ان مشکلات اور رکاوٹوں کا مقابلہ کرنا جہاد ہے، اور ہر حال میں اپنے اقرار پر جمے رہنے کا نام صبر ہے۔ جو لوگ اس جہاد اورصبر کا ثبوت دیں وہی وہ لوگ ہیں جو جنت کی آباد کاری کے قابل ٹھہرے۔ نیز اسی سے دنیا کی سر بلندی کا راستہ کھلتا ہے۔ ’’جہاد‘‘ ان کے مسلسل اور مکمل عمل کی ضمانت ہے اور ’’صبر‘‘ اس بات کی ضمانت ہے کہ وہ کبھی کوئی جذباتی اقدام نہیں کریں گے۔ اور یہ دو باتیں جس گروہ میں پیدا ہوجائیں اس کے لیے خدا کی اس دنیا میں کامیابی اتنی ہی یقینی ہوجاتی ہے جتنی موافق زمین میںایک بیج کا بار آور ہونا۔ ایک شخص اللہ کے راستے پر چلنے کا ارادہ کرتا ہے تو دوسروں کی طرف سے طرح طرح کے مسائل پیش آتے ہیں۔ یہ مسائل کبھی اس کو بے یقینی کی کیفیت میںمبتلا کرتے ہیں۔ کبھی مصلحت پرستی کا سبق دیتے ہیں۔ کبھی اس کے اندر منفی نفسیات ابھارتے ہیں۔ کبھی خدا کے خالص دین کے مقابلہ میں ایسے عوامی دین کا نسخہ بتاتے ہیں جو لوگوں کے لیے قابل قبول ہو۔ یہی موجودہ دنیامیں آدمی کا امتحان ہے۔ ان مواقع پر آدمی جو ردعمل ظاہر کرے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ اپنے اقرارِ ایمان میں سچا تھا یا جھوٹا۔ اگر اس کا عمل اس کے دعوائے ایمان کے مطابق ہو تو وہ سچا ہے اور اگر اس کے خلاف ہو تو جھوٹا۔ شہید (اللہ کا گواہ) بننا اس سفر کی آخری انتہا ہے۔ اللہ کا ایک بندہ لوگوں کے درمیان حق کا داعی بن کر کھڑا ہوا۔ اس کا حال یہ تھا کہ وہ جس چیز کی طرف بلا رہا تھا، خود اس پر پوری طرح قائم تھا۔ لوگوں نے اس کو حقیر سمجھا مگر اس نے کسی کی پروا نہ کی۔ اس پر مشکلات آئیں مگر وہ اس کو اپنے مقام سے ہٹانے میں کامیاب نہ ہوسکیں۔ وہ نہ کمزور پڑا اور نہ منفی نفسیات کا شکار ہوا۔ حتی کہ اس کے جان ومال کی بازی لگ گئی پھر بھی وہ اپنے دعوتی موقف سے نہ ہٹا۔ یہ امتحان حد درجہ طوفانی امتحان ہے۔ مگر اس سے گزرنے کے بعدہی وہ انسان بنتا ہے جس کو اللہ اپنے بندوں کے اوپر اپنا گواہ قرار دے۔ آدمی جب ہر قسم کے حالات کے باوجود اپنے دعوتی عمل پر قائم رہتا ہے تو وہ اپنے پیغام کے حق میں اپنے یقین کا ثبوت دیتا ہے۔ نیز یہ کہ وہ جس بات کی خبر دے رہا ہے وہ ایک حد درجہ سنجیدہ معاملہ ہے، نہ کہ کوئی سرسری معاملہ۔