slot qris slot gacor terbaru slot gacor terbaik slot dana link slot gacor slot deposit qris slot pulsa slot gacor situs slot gacor slot deposit qris slot qris bokep indo
| uswah-academy
WhatsApp Book A Free Trial
القائمة

🕋 تفسير الآية 153 من سورة سُورَةُ آلِ عِمۡرَانَ

Aal-i-Imraan • UR-TAZKIRUL-QURAN

﴿ ۞ إِذْ تُصْعِدُونَ وَلَا تَلْوُۥنَ عَلَىٰٓ أَحَدٍۢ وَٱلرَّسُولُ يَدْعُوكُمْ فِىٓ أُخْرَىٰكُمْ فَأَثَٰبَكُمْ غَمًّۢا بِغَمٍّۢ لِّكَيْلَا تَحْزَنُوا۟ عَلَىٰ مَا فَاتَكُمْ وَلَا مَآ أَصَٰبَكُمْ ۗ وَٱللَّهُ خَبِيرٌۢ بِمَا تَعْمَلُونَ ﴾

“[Remember the time] when you fled, paying no heed to anyone, while at your rear the Apostle was calling out to you - wherefore He requited you with woe in return for [the Apostle's] woe, so that you should not grieve [merely] over what had escaped you, nor over what had befallen you: for God is aware of all that you do.”

📝 التفسير:

جنگ احد میں وقتی شکست سے مخالفوں کو موقع ملا۔ انھوںنے کہنا شروع کیا کہ پیغمبر اور ان کے ساتھیوں کا معاملہ کوئی خدائی معاملہ نہیں ہے۔ کچھ لوگ محض طفلانہ جوش کے تحت اٹھ کھڑے ہوئے ہیں اور اپنے جوش کی سزا بھگت رہے ہیں۔ اگر یہ خدائی معاملہ ہوتا تو ان کو اپنے دشمنوں کے مقابلہ میں شکست کیوں ہوتی۔ مگر اس طرح کے واقعات خواہ بظاہر مسلمانوں کی غلطی سے پیش آئیں، وہ ہر حال میں خدا کا امتحان ہوتے ہیں۔ دنیا کی زندگی میں ’’احد‘‘ کا حادثہ پیش آنا ضروری ہے تاکہ یہ کھل جائے کہ کون اللہ پر اعتماد کرنے والا تھا اور کون پھسل جانے والا۔ اس قسم کے واقعات مومن کے لیے دو طرفہ آزمائش ہوتے ہیں۔ ایک یہ کہ وہ لوگوں کی مخالفانہ باتوں سے متاثر نہ ہو۔ دوسرے یہ کہ وہ وقتی تکلیف سے گھبرا نہ جائے، اور ہر حال میں ثابت قدم رہے۔ مشکل مواقع پر اہل ایمان اگر جمے رہ جائیں تو بہت جلد ایسا ہوتا ہے کہ خدا کی نصرتِ رعب نازل ہوتی ہے، جو شخص یا گروہ اللہ کے سچے دین کے سوا کسی اور چیز کے اوپر کھڑا ہوا ہے وہ حقیقۃً بے بنیاد زمین پر کھڑا ہوا ہے۔ کیوں کہ اللہ کی اتاری ہوئی سچائی کے سوا اس دنیا میں کوئی اور حقیقی بنیاد نہیں۔ اس لیے جب کوئی دین خدا وندی کے اوپر کھڑا ہو اور جماؤ کا ثبوت دے تو جلد ہی ایسا ہوتا ہے کہ اہل باطل کی صفوںمیں انتشار شروع ہوجاتا ہے۔ دلائل کے اعتبار سے ان کا بے بنیاد ہونا ان کے افراد میں بے یقینی کی کیفیت پیدا کردیتا ہے۔ وہ اپنے کو کم اور اہل ایمان کو زیادہ دیکھنے لگتے ہیں۔ ان کی ذہنی شکست بالآخر عملی شکست تک پہنچتی ہے۔ وہ اہلِ حق کے مقابلہ میں ناکام ونامراد ہو کر رہ جاتے ہیں۔ مسلمانوں کے لیے شکست اور کمزوری کا سبب ہمیشہ ایک ہوتا ہے، اور وہ ہے تنازع فی الامر۔ یعنی رایوں کے اختلاف کی بنا پر الگ ہوجانا۔ انسانوں کے درمیان اتفاق کبھی اس معنی میں نہیں ہوسکتا کہ سب کی رائیں بالکل ایک ہوجائیں۔ اس لیے کسی گروہ میں اتحاد کی صورت صرف یہ ہے کہ رایوں میں اختلاف کے باوجود عمل میں اختلاف نہ کیا جائے۔ جب تک کسی گروہ میں یہ بلند نظری پائی جائے گی وہ متحد اور نتیجتاً طاقت ور رہے گا۔ اور جب رایوں کا اختلاف کرکے لوگ الگ الگ ہونے لگیں تو اس کے بعد لازماً کمزوری اور اس کے نتیجہ میں شکست واقع ہوگی۔