Aal-i-Imraan • UR-TAZKIRUL-QURAN
﴿ ثُمَّ أَنزَلَ عَلَيْكُم مِّنۢ بَعْدِ ٱلْغَمِّ أَمَنَةًۭ نُّعَاسًۭا يَغْشَىٰ طَآئِفَةًۭ مِّنكُمْ ۖ وَطَآئِفَةٌۭ قَدْ أَهَمَّتْهُمْ أَنفُسُهُمْ يَظُنُّونَ بِٱللَّهِ غَيْرَ ٱلْحَقِّ ظَنَّ ٱلْجَٰهِلِيَّةِ ۖ يَقُولُونَ هَل لَّنَا مِنَ ٱلْأَمْرِ مِن شَىْءٍۢ ۗ قُلْ إِنَّ ٱلْأَمْرَ كُلَّهُۥ لِلَّهِ ۗ يُخْفُونَ فِىٓ أَنفُسِهِم مَّا لَا يُبْدُونَ لَكَ ۖ يَقُولُونَ لَوْ كَانَ لَنَا مِنَ ٱلْأَمْرِ شَىْءٌۭ مَّا قُتِلْنَا هَٰهُنَا ۗ قُل لَّوْ كُنتُمْ فِى بُيُوتِكُمْ لَبَرَزَ ٱلَّذِينَ كُتِبَ عَلَيْهِمُ ٱلْقَتْلُ إِلَىٰ مَضَاجِعِهِمْ ۖ وَلِيَبْتَلِىَ ٱللَّهُ مَا فِى صُدُورِكُمْ وَلِيُمَحِّصَ مَا فِى قُلُوبِكُمْ ۗ وَٱللَّهُ عَلِيمٌۢ بِذَاتِ ٱلصُّدُورِ ﴾
“Then, after this woe, He sent down upon you a sense of security, an inner calm which enfolded some of you, whereas the others, who cared mainly for themselves, entertained wrong thoughts about God - thoughts of pagan ignorance - saying, "Did we, then, have any power of decision [in this matter]?" Say: "Verily, all power of decision does rest with God" - [but as for them,] they are trying to conceal within themselves that [weakness of faith] which they would not reveal unto thee, [O Prophet, by] saying, "If we had any power of decision, we would not have left so many dead behind." Say [unto them]: "Even if you had remained in your homes, those [of you] whose death had been ordained would indeed have gone forth to the places where they were destined to lie down." And [all this befell you] so that God might put to a test all that you harbour in your bosoms, and render your innermost hearts pure of all dross: for God is aware of what is in the hearts [of men].”
زندگی کے معرکہ میں سب سے زیادہ اہمیت اس بات کی ہوتی ہے کہ آدمی کا چین اس سے رخصت نہ ہو۔ وہ پوری یکسوئی کے ساتھ اپنا منصوبہ بنانے کے قابل رہے۔ اللہ پر بھروسہ کی وجہ سے اہلِ ایمان کو یہ چیز کمال درجہ میں حاصل ہوتی ہے۔ حتی کہ ہلادینے والے موقع پر جب کہ لوگوں کی نیندیں اُڑ جاتی ہیں، اس وقت بھی وہ اس قابل رہتے ہیں کہ ایک نیند لے کر دوبارہ تازہ دم ہوسکیں۔ احد کے موقع پر اس کا ایک مظاہرہ اس طرح ہوا کہ شکست کے بعد سخت ترین حالات کے باوجود وہ سو سکے اور اگلے دن حمراء الاسد تک دشمن کا پیچھا کیا، جو مدینہ سے ۸ میل کے فاصلے پر ہے۔ اس کے نتیجہ میں فاتح دشمن مرعوب ہو کر مکہ واپس چلا گیا۔ یہ سچے اہل ایمان کا حال ہے۔مگر جو لوگ پورے معنوں میں اللہ کو اپنا ولی وسرپرست بنائے ہوئے نہ ہوں، ان کو ہر طرف بس اپنی جان کا خطرہ نظر آتا ہے۔ دین کی فکر سے خالی لوگ اپنی ذات کی فکر میں پڑے رہتے ہیں وہ اللہ کی نصرتِ اطمینان میں سے اپنا حصہ نہیں پاتے۔ احد کے موقع پر عبد اللہ بن اُبي کی رائے تھی کہ مدینہ میں رہ کر جنگ کی جائے۔ مگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مخلص مسلمانوں کے مشورہ پر باہر نکلے اور احد پہاڑ کے دامن میں مقابلہ کیا۔ درّہ پر متعین دستہ کی غلطی سے جب شکست ہوئی تو ان لوگوں کو موقع ملا۔ انھوں نے کہنا شروع کیا کہ اگر ہماری بات مانی گئی ہوتی اور مدینہ میں رہ کر لڑتے تو اس بربادی کی نوبت نہ آتی۔ مگر موت خدا کی طرف سے ہے اور وہیں آکر رہتی ہے جہاں وہ کسی کے لیے لکھی ہوئی ہے۔ احتیاطی تدبیریں کسی کو موت سے بچا نہیں سکتیں۔ اس طرح کے واقعات، خواہ بظاہر ان کا جو سبب بھی نظر آئے، وہ اللہ کی طرف سے ہوتے ہیں۔ تاکہ اللہ کے سچے بندے اللہ کی طرف رجوع کرکے مزید رحمتوں کے مستحق بنیں۔ اور جو سچے نہیں ہیں ان کی حقیقت بھی کھل کر سامنے آجائے۔ احد کے درہ پر جو پچاس تیر انداز متعین تھے جب انھوں نے دیکھا کہ مسلمانوں کو فتح ہوگئی ہے تو ان میں سے کچھ لوگوں نے اصرار کیاکہ چل کر مال غنیمت لوٹیں ۔ مگر عبد اللہ بن جبیرؓ او ران کے کچھ ساتھیوں نے کہا نہیں۔ ہم کو ہر حال میں یہیں رہنا ہے کیوں کہ یہی رسول اللہ کا حکم ہے۔ بالآخر گیارہ کو چھوڑ کر بقیہ لوگ چلے گئے۔ باہمی اختلاف کی اس کمزوری سے شیطان نے اندر داخل ہونے کا راستہ پالیا۔ تاہم انھوں نے جب اپنی غلطی کا اعتراف کیا تو اللہ نے ان کو معاف کردیا اور ابتدائی نقصان کے بعد ان کی مدد اس طرح کی کہ دشمنوں کے دل میں رعب ڈال کر ان کو واپس کردیا۔ حالاں کہ اس وقت وہ مدینہ سے صرف چند میل کے فاصلے پر رہ گئے تھے۔