Aal-i-Imraan • UR-TAZKIRUL-QURAN
﴿ إِنَّ ٱلَّذِينَ تَوَلَّوْا۟ مِنكُمْ يَوْمَ ٱلْتَقَى ٱلْجَمْعَانِ إِنَّمَا ٱسْتَزَلَّهُمُ ٱلشَّيْطَٰنُ بِبَعْضِ مَا كَسَبُوا۟ ۖ وَلَقَدْ عَفَا ٱللَّهُ عَنْهُمْ ۗ إِنَّ ٱللَّهَ غَفُورٌ حَلِيمٌۭ ﴾
“Behold, as for those of you who turned away [from their duty] on the day when the two hosts met in battle - Satan caused them to stumble only by means of something that they [themselves] had done. But now God has effaced this sin of theirs: verily, God is much-forgiving, forbearing.”
زندگی کے معرکہ میں سب سے زیادہ اہمیت اس بات کی ہوتی ہے کہ آدمی کا چین اس سے رخصت نہ ہو۔ وہ پوری یکسوئی کے ساتھ اپنا منصوبہ بنانے کے قابل رہے۔ اللہ پر بھروسہ کی وجہ سے اہلِ ایمان کو یہ چیز کمال درجہ میں حاصل ہوتی ہے۔ حتی کہ ہلادینے والے موقع پر جب کہ لوگوں کی نیندیں اُڑ جاتی ہیں، اس وقت بھی وہ اس قابل رہتے ہیں کہ ایک نیند لے کر دوبارہ تازہ دم ہوسکیں۔ احد کے موقع پر اس کا ایک مظاہرہ اس طرح ہوا کہ شکست کے بعد سخت ترین حالات کے باوجود وہ سو سکے اور اگلے دن حمراء الاسد تک دشمن کا پیچھا کیا، جو مدینہ سے ۸ میل کے فاصلے پر ہے۔ اس کے نتیجہ میں فاتح دشمن مرعوب ہو کر مکہ واپس چلا گیا۔ یہ سچے اہل ایمان کا حال ہے۔مگر جو لوگ پورے معنوں میں اللہ کو اپنا ولی وسرپرست بنائے ہوئے نہ ہوں، ان کو ہر طرف بس اپنی جان کا خطرہ نظر آتا ہے۔ دین کی فکر سے خالی لوگ اپنی ذات کی فکر میں پڑے رہتے ہیں وہ اللہ کی نصرتِ اطمینان میں سے اپنا حصہ نہیں پاتے۔ احد کے موقع پر عبد اللہ بن اُبي کی رائے تھی کہ مدینہ میں رہ کر جنگ کی جائے۔ مگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مخلص مسلمانوں کے مشورہ پر باہر نکلے اور احد پہاڑ کے دامن میں مقابلہ کیا۔ درّہ پر متعین دستہ کی غلطی سے جب شکست ہوئی تو ان لوگوں کو موقع ملا۔ انھوں نے کہنا شروع کیا کہ اگر ہماری بات مانی گئی ہوتی اور مدینہ میں رہ کر لڑتے تو اس بربادی کی نوبت نہ آتی۔ مگر موت خدا کی طرف سے ہے اور وہیں آکر رہتی ہے جہاں وہ کسی کے لیے لکھی ہوئی ہے۔ احتیاطی تدبیریں کسی کو موت سے بچا نہیں سکتیں۔ اس طرح کے واقعات، خواہ بظاہر ان کا جو سبب بھی نظر آئے، وہ اللہ کی طرف سے ہوتے ہیں۔ تاکہ اللہ کے سچے بندے اللہ کی طرف رجوع کرکے مزید رحمتوں کے مستحق بنیں۔ اور جو سچے نہیں ہیں ان کی حقیقت بھی کھل کر سامنے آجائے۔ احد کے درہ پر جو پچاس تیر انداز متعین تھے جب انھوں نے دیکھا کہ مسلمانوں کو فتح ہوگئی ہے تو ان میں سے کچھ لوگوں نے اصرار کیاکہ چل کر مال غنیمت لوٹیں ۔ مگر عبد اللہ بن جبیرؓ او ران کے کچھ ساتھیوں نے کہا نہیں۔ ہم کو ہر حال میں یہیں رہنا ہے کیوں کہ یہی رسول اللہ کا حکم ہے۔ بالآخر گیارہ کو چھوڑ کر بقیہ لوگ چلے گئے۔ باہمی اختلاف کی اس کمزوری سے شیطان نے اندر داخل ہونے کا راستہ پالیا۔ تاہم انھوں نے جب اپنی غلطی کا اعتراف کیا تو اللہ نے ان کو معاف کردیا اور ابتدائی نقصان کے بعد ان کی مدد اس طرح کی کہ دشمنوں کے دل میں رعب ڈال کر ان کو واپس کردیا۔ حالاں کہ اس وقت وہ مدینہ سے صرف چند میل کے فاصلے پر رہ گئے تھے۔