Aal-i-Imraan • UR-TAZKIRUL-QURAN
﴿ فَبِمَا رَحْمَةٍۢ مِّنَ ٱللَّهِ لِنتَ لَهُمْ ۖ وَلَوْ كُنتَ فَظًّا غَلِيظَ ٱلْقَلْبِ لَٱنفَضُّوا۟ مِنْ حَوْلِكَ ۖ فَٱعْفُ عَنْهُمْ وَٱسْتَغْفِرْ لَهُمْ وَشَاوِرْهُمْ فِى ٱلْأَمْرِ ۖ فَإِذَا عَزَمْتَ فَتَوَكَّلْ عَلَى ٱللَّهِ ۚ إِنَّ ٱللَّهَ يُحِبُّ ٱلْمُتَوَكِّلِينَ ﴾
“And it was by God's grace that thou [O Prophet] didst deal gently with thy followers: for if thou hadst been harsh and hard of heart, they would indeed have broken away from thee. Pardon them, then, and pray that they be forgiven. And take counsel with them in all matters of public concern; then, when thou hast decided upon a course of action, place thy trust in God: for, verily, God loves those who place their trust in Him.”
اس دنیا میں جو کچھ ہوتا ہے اللہ کے حکم سے ہوتا ہے۔ تاہم یہاں ہر چیز پر اسباب کا پردہ ڈال دیاگیا ہے۔ واقعات بظاہر اسباب کے تحت ہوتے ہوئے نظر آتے ہیں مگر حقیقتاً وہ اللہ کے حکم کے تحت ہورہے هوتے ہیں۔ آدمی کا امتحان یہ ہے کہ وہ ظاہری اسباب میں نہ اٹکے بلکہ ان کے پیچھے کام کرنے والی قدرتِ خداوندی کو دیکھ لے۔ غیر مومن وہ ہے جو اسباب میں کھو جائے اور مومن وہ ہے جو اسباب سے گزر کر اصل حقیقت کو پالے۔ ایک شخص مومن ہونے کا مدعی ہومگر اسی کے ساتھ اس کا حال یہ ہو کہ زندگی وموت اور کامیابی و ناکامی کو وہ تدبیروں کا نتیجہ سمجھتا ہو تو اس کا ایمانی دعویٰ معتبر نہیں۔ غیر مومن کے ساتھ کوئی حادثہ پیش آئے تو وہ اس غم میں مبتلا ہوجاتا ہے کہ میںنے فلاں تدبیر کی ہوتی تو میں حادثہ سے بچ جاتا۔ مگر مومن کے ساتھ جب کوئی حادثہ گزرتا ہے تو وہ یہ سوچ کر مطمئن رہتا ہے کہ اللہ کی مرضی یہی تھی۔ جو لوگ دنیوی اسباب کو اہمیت دیں وہ اپنی پوری زندگی دنیا کی چیزوں کو حاصل کرنے میں لگادیتے ہیں۔ ’’مرنے‘‘ سے زیادہ ’’جینا‘‘ ان کو عزیز ہوجاتا ہے۔ مگر پانے کی اصل چیز وہ ہے جو آخرت میں ہے۔ یعنی اللہ کی جنت ومغفرت۔ اور جنت وہ چیز ہے جس کو صرف زندگی ہی کی قیمت پر حاصل کیا جاسکتا ہے۔ آدمی کا وجود ہی جنت کی واحد قیمت ہے۔ آدمی اگر اپنے وجود کو نہ دے تو وہ کسی اور چیز کے ذریعہ جنت حاصل نہیں کرسکتا۔ اہلِ ایمان کے ساتھ جس اجتماعی سلوک کا حکم پیغمبر کو دیا گیا ہے وہی عام مسلم سربراہ کے لیے بھی ہے۔ مسلم سربراہ کے لیے ضروری ہے کہ وہ نرم دل اور نرم گفتار ہو۔ یہ نرمی صرف روز مرہ کی عام زندگی ہی میں مطلوب نہیں ہے بلکہ ایسے غیر معمولی مواقع پر بھی مطلوب ہے جب کہ اسلام اور غیر اسلام کے تصادم کے وقت لوگوں سے ایک حکم کی نافرمانی ہو اور نتیجہ میں جیتی ہوئی جنگ ہار میں بدل جائے۔ سربراه کے اندر جب تک یہ وسعت اور بلندنظري نہ ہو طاقت ور اجتماعیت قائم نہیں ہوسکتی۔ غلطی خواہ کتنی ہی بڑی ہو، اگر وہ صرف ایک غلطی ہے، شر پسندی نہیں ہے تو وہ قابل معافی ہے۔ سربراہ کو چاہيے کہ ایسی ہر غلطی کو بھلا کر وہ لوگوں سے معاملہ کرے۔ حتی کہ وہ لوگوں کا اتنا خیر خواہ ہو کہ ان کے حق میں اس کے دل سے دعائیں نکلنے لگیں۔ اس کی نظر میں لوگوں کی اتنی قدر ہو کہ معاملات میں وہ ان سے مشورہ لے۔ جب آدمی کو یہ یقین ہو کہ جو کچھ ہوتا ہے خدا کے کيے سے ہوتا ہے تو اس کے بعد انسانی اسباب اس کی نظر میں ناقابل لحاظ ہوجائیںگے۔