Aal-i-Imraan • UR-TAZKIRUL-QURAN
﴿ هُمْ دَرَجَٰتٌ عِندَ ٱللَّهِ ۗ وَٱللَّهُ بَصِيرٌۢ بِمَا يَعْمَلُونَ ﴾
“They are on [entirely] different levels in the sight of God; for God sees all that they do.”
احدکے درہ پر متعین جن چالیس افراد نے نافرمانی کی تھی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو معاف کردیا تھا۔ تاہم ان لوگوں کو یہ شبہ تھا کہ آپ نے شاید صرف اوپری طورپر ہم کو معاف کیا ہے۔ دل میں آپ اب بھی خفا ہیں اور کسی وقت ہمارے اوپر خفگی نکالیں گے۔ فرمایا کہ یہ پیغمبر کا طریقہ نہیں۔ پیغمبر اندر اور باہر ایک ہوتا ہے۔ اس سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ مسلمانوں کے سربراہ کو کیسا ہونا چاہیے۔ مسلم سربراہ کا دل ایسا ہونا چاہيے کہ اس کے اندر بغض، نفرت، کینہ اور حسد بالکل جگہ نہ پاسکے — حتیٰ کہ اس وقت بھی نہیں جب کہ اس کے ساتھیوں سے ایک بھیانک غلطی ہوگئی ہو۔ مسلم سربراہ کو چاہیے کہ بڑی سے بڑی غلطی کرنے والوں کے خلاف بھی وہ دل میں کوئی جذبہ چھپا کر نہ رکھے۔ آج کے دن ان کے ساتھ اس طرح رہے جیسے پچھلے دن ان سے كوئي غلطي نهيں هوئي تھي۔ اسی طرح یہ بھی ضروری ہے کہ مسلمانوں کا کوئی گروہ جب ایک سربراہ پر اعتماد کرکے اپنے معاملات کو اس کے سپرد کردے تو سربراہ کو ایسا کبھی نہيں کرنا چاہیے کہ ان کے جان ومال کو وہ اپنے ذاتی حوصلوں اور تمناؤں کی تکمیل پر قربان کردے۔یہ اللہ کے غضب سے بے خوف ہونا ہے۔ جو شخص لوگوں کو یہ بتانے کے لیے اٹھا ہو کہ لوگ اللہ کی مرضی پر چلیں وہ خود کیوں کر اس حال میں اللہ سے ملنا پسند کرے گا کہ وہ اللہ کی مرضی کے خلاف چلا ہو۔ پیغمبر نے اپنی زندگی سے جو مثالی نمونہ قائم کیا ہے، قیامت تک تمام مصلحین کو اسی کے مطابق بننا ہے۔ اصلاح کے کام کے لیے ضروری ہے کہ آدمی جن لوگوں کے درمیان کام کرنے كو اٹھے ان کو ہر اعتبار سے وہ ’’اپنا‘‘ نظر آئے، اس کی زبان، اس کا طرز کلام، اس کا رہن سہن ہرچیز اجنبیت سے پاک ہو۔ وہ اپنے اور اپنے مخاطبین کے درمیان ایسی فضا نہ بنائے جو کسی پہلو سے ایک دوسرے کو دور کرنے والی ہو یا ایک کو دوسرے کے مقابلہ میں فریق بنا کر کھڑا کردے۔ لوگوں کے درمیان جو کام کرنا ہے وہ سب سے پہلے یہ ہے کہ لوگوں کے اندر یہ صلاحیت پیدا کی جائے کہ وہ ان نشانیوں کو پڑھنے لگیں جو ان کی ذات میں اور باہر کی دنیا میں پھیلی ہوئی ہیں۔ وہ اللہ کی دلیلوں کو جان کر ان کو اپنے ذہن کاجزء بنائیں۔ دوسرا کام تزکیہ ہے۔ یہ مقصد زبانی گفتگو اور صحبت کے ذریعہ حاصل ہوتا ہے۔ عمومی تحریر اور تقریر میں بات زیادہ تر اصولی انداز ميں ہوتی ہے جب کہ انفرادی گفتگوؤںمیں بات زیادہ متعین اور زیادہ مفصل صورت میں ہوتی ہے۔ نیز داعی کا اپنا وجود بھی پوری طرح اس کی تقویت كے ليےموجود رہتاہے۔ عمومی کلام اگر دعوت ہوتا ہے تو انفرادی ملاقاتیں مدعو کے لیے تزکیہ کے ہم معنی بن جاتی ہیں۔ تیسری چیز کتاب ہے۔ یعنی زندگی گزارنے کے بابت آسمانی ہدایات کو بتانا جس کا دوسرا نام شریعت ہے اور چوتھی چیز حکمت ہے۔ یعنی دین کے گہرے بھیدوں سے پردہ اٹھانا، بین السطور میں چھپے ہوئے حقائق کو نمایاں کرنا۔