slot qris slot gacor terbaru slot gacor terbaik slot dana link slot gacor slot deposit qris slot pulsa slot gacor situs slot gacor slot deposit qris slot qris bokep indo
| uswah-academy
WhatsApp Book A Free Trial
القائمة

🕋 تفسير الآية 167 من سورة سُورَةُ آلِ عِمۡرَانَ

Aal-i-Imraan • UR-TAZKIRUL-QURAN

﴿ وَلِيَعْلَمَ ٱلَّذِينَ نَافَقُوا۟ ۚ وَقِيلَ لَهُمْ تَعَالَوْا۟ قَٰتِلُوا۟ فِى سَبِيلِ ٱللَّهِ أَوِ ٱدْفَعُوا۟ ۖ قَالُوا۟ لَوْ نَعْلَمُ قِتَالًۭا لَّٱتَّبَعْنَٰكُمْ ۗ هُمْ لِلْكُفْرِ يَوْمَئِذٍ أَقْرَبُ مِنْهُمْ لِلْإِيمَٰنِ ۚ يَقُولُونَ بِأَفْوَٰهِهِم مَّا لَيْسَ فِى قُلُوبِهِمْ ۗ وَٱللَّهُ أَعْلَمُ بِمَا يَكْتُمُونَ ﴾

“and mark out those who were tainted with hypocrisy and, when they were told, "Come, fight in God's cause" - or, "Defend yourselves" - answered, "If we but knew [that it would come to a] fight, we would indeed follow you." Unto apostasy were they nearer on that day than unto faith, uttering with their mouths something which was not in their hearts, the while God knew fully well what they were trying to conceal:”

📝 التفسير:

حق وباطل کے مقابلہ میں آخری فتح حق کو ہوتی ہے۔ کیوںکہ اللہ ہمیشہ حق کے ساتھ ہوتا ہے۔ تاہم یہ دنیا امتحان کی دنیا ہے۔ یہاں شرپسندوں کو بھی عمل کی پوری آزادی ہے۔ اس لیے کبھی ایسا ہوتا ہے کہ اہل حق کی کسی کمزوری، مثلاً باہمی اختلاف سے فائدہ اٹھا کر شرپسند ان کو وقتی نقصان پہنچانے میں کامیاب ہوجاتے ہیں۔ تاہم اس طرح کے واقعات کا ایک مفید پہلو بھی ہے۔ اس کے ذریعہ خود مسلمانوں کی جماعت کی جانچ ہوجاتی ہے۔ ناموافق حالات کو دیکھ کر غیر مخلص لوگ چھٹ جاتے ہیں اور جو سچے مسلمان ہیں وہ اللہ پر بھروسہ کرتے ہوئے جمے رہتے ہیں۔ اس طرح معلوم ہوجاتا ہے کہ کون قابل اعتماد ہے اورکون ناقابل اعتماد۔ مزید یہ کہ اتفاقی غلطی سے نقصان اٹھانے کے بعد جب اہل ایمان دوبارہ صبر اور انابت اور توکل علی اللہ کا ثبوت دیتے ہیں تو خدا کی رحمت ان کی طرف پہلے سے بھی زیادہ متوجہ ہوجاتی ہے۔ حق وباطل کے معرکہ میں جو لوگ اس طرح شرکت کریں کہ اسی کی راہ میں اپنے کومٹا دیں، ان کے متعلق اہل دنیا اکثر افسوس کے ساتھ کہتے ہیں کہ انھوں نے خواہ مخواہ اپنے کو برباد کرلیا۔ مگر یہ صرف نادانی کی بات ہے۔ اللہ کی راہ میں کھونا ہی تو سب سے بڑا پانا ہے ۔ کیوں کہ جو لوگ اللہ کی راہ میں اپنا سب کچھ قربان کردیں وہی وہ لوگ ہیں جو سب سے زیادہ اللہ کے انعامات کے مستحق قرار ديے جائیںگے۔ اللہ کی راہ میں جان دینے والوں کا ذکر نادان لوگ اس طرح کرتے ہیں جیسے دوسری راہوں میں اپنی زندگیاں لگانے والوں پر موت نہیں آتی، جیسے کہ صرف مجاہدین فی سبیل اللہ مرتے ہیں اور دوسرے لوگ مرتے ہی نہیں۔ ظاہر ہے کہ یہ بات سراسر بے معنی ہے۔ موت خدا کا ایک عام قانون ہے۔ وہ بہر حال ہرایک کے لیے اپنے وقت پر آنے والی ہے۔ آدمی خواہ ایک راستہ میں چل رہا ہو یا دوسرے راستہ میں، وہ کسی حالت میں موت کے انجام سے بچ نہیں سکتا۔ جو لوگ اس قسم کی باتیں کرتے ہیں وہ کبھی اپنی بات میں سنجیدہ نہیں ہوتے۔ ان کا دل تو اعتراف کررہا ہوتا ہے کہ حق کے لیے قربانی نہ دے کر انھوںنے سخت کوتاہی کی ہے۔ مگر زبان سے قربانی کرنے والوں کو مطعون کرکے اپنا ظاہری بھرم قائم رکھنا چاہتے ہیں۔ وہ اپنی زبان سے ایسے الفاظ بولتے ہیں جن کے بارے میں خود ان کا دل گواہی دے رہا ہوتا ہے وہ جھوٹے الفاظ ہیں، ان کی کوئی واقعی حقیقت نہیں۔