slot qris slot gacor terbaru slot gacor terbaik slot dana link slot gacor slot deposit qris slot pulsa slot gacor situs slot gacor slot deposit qris slot qris bokep indo xhamster/a> jalalive/a>
| uswah-academy
WhatsApp Book A Free Trial
القائمة

🕋 تفسير الآية 171 من سورة سُورَةُ آلِ عِمۡرَانَ

Aal-i-Imraan • UR-TAZKIRUL-QURAN

﴿ ۞ يَسْتَبْشِرُونَ بِنِعْمَةٍۢ مِّنَ ٱللَّهِ وَفَضْلٍۢ وَأَنَّ ٱللَّهَ لَا يُضِيعُ أَجْرَ ٱلْمُؤْمِنِينَ ﴾

“they rejoice in the glad tiding of God's blessings and bounty, and [in the promise] that God will not fail to requite the believers”

📝 التفسير:

جو لوگ اسلام دشمنوں سے لڑے اور شہید ہوئے ان کو منافقین ’’موتِ ضیاع‘‘ کہتے تھے۔ ان کا خیال تھا کہ یہ مسلمان ایک شخص کے بہکاوے میں آکر اپنی جانیں ضائع کررہے ہیں۔ فرمایا کہ جس کو تم موت سمجھتے ہو وہی حقیقت میں زندگی ہے۔ تم صرف دنیا کا نفع نقصان جانتے ہو۔ یہی وجہ ہے کہ آخرت کی راہ میں جان دینا تمھیں اپنے آپ کو برباد کرنا معلوم ہوتا ہے مگر اللہ کی راہ میں مرنے والے تم سے زیادہ بہتر زندگی پائے ہوئے ہیں۔ وہ آخرت میں تم سے زیادہ عیش کی حالت میں ہیں۔ شیطان کا یہ طریقہ ہے کہ وہ جن انسانوں کو اپنے قریب پاتاہے انھیں اکسا کر کھڑا کردیتا ہے كہ وہ دین کی طرف بڑھنے کے خوفناک نتائج دکھا کر لوگوں كو دین کے راستے سے ہٹا دیں۔ یہ لوگ مخالفین کی قوت كو بڑھا چڑھا کر بیان کرتے ہیں تاکہ اہل ایمان مرعوب ہوجائیں۔ مگر اس قسم کی باتیں اہل ایمان کے حق میں مفید ثابت ہوتی ہیں۔ کیوں کہ ان کا یہ یقین از سر نو زندہ ہوجاتا ہے کہ مشکل حالات میںان کا خداا نھیں تنہا نہیں چھوڑے گا۔ احد کی جنگ مدینہ سے تقریباً دو میل کے فاصلے پر ہوئی۔ جنگ کے بعد کافروں کا لشکر ابو سفیان کی قیادت میں واپس روانہ ہوا۔ مدینہ سے آٹھ میل پر حمراء الاسد پہنچ کر انھوں نے پڑاؤ ڈالا۔ یہاں ان کی سمجھ میں یہ بات آئی کہ احد سے واپس ہو کر انھوں نے غلطی کی ہے۔ یہ بہترین موقع تھا کہ مدینہ تک مسلمانوں کا پیچھا کیا جاتا اور ان کی طاقت کا آخری طورپر خاتمہ کردیا جاتا۔ اس درمیان میںان کو قبیلہ عبد القیس کا ایک تجارتی قافلہ مل گیا جو مدینہ جارہا تھا۔ کافروں نے اس قافلہ کو کچھ رقم دے کر آمادہ کیا کہ وہ مدینہ پہنچ کر ایسی خبریں پھیلائے جس سے مسلمان ڈر جائیں۔ چنانچہ قافلہ والوں نے مدینہ پہنچ کر کہنا شروع کیا کہ ہم دیکھ آئیں ہیں کہ مکہ والے بھاری لشکر جمع کررہے ہیںاور وه دوبارہ مدینہ پر حملہ کرنے والے ہیں۔ مگر مسلمانوں کا اللہ پر بھروسہ اس بات کی ضمانت بن گیا کہ کافروں کی تدبیر الٹی پڑجائے۔ اس کا فائدہ یہ ہوا کہ مسلمان اپنے دشمنوں کے ارادہ سے باخبر ہوگئے۔ قبل اس کے کہ مکہ والوں کی فوج مدینہ کی طرف چلے وہ خود پیغمبر کی رہنمائی میںاپنی جمعیت بنا کر تیزی سے حمراء الاسد کی طرف روانہ ہوگئے۔ مکہ والوں کو جب یہ خبر ملی کہ مسلمانوں کی فوج اقدام کرکے ان کی طرف آرہی ہے تو وہ سمجھے کہ مسلمانوںکو نئی کمک مل گئی ہے۔ وہ گھبرا کر مکہ کی طرف واپس چلے گئے۔