Aal-i-Imraan • UR-TAZKIRUL-QURAN
﴿ وَلَا يَحْزُنكَ ٱلَّذِينَ يُسَٰرِعُونَ فِى ٱلْكُفْرِ ۚ إِنَّهُمْ لَن يَضُرُّوا۟ ٱللَّهَ شَيْـًۭٔا ۗ يُرِيدُ ٱللَّهُ أَلَّا يَجْعَلَ لَهُمْ حَظًّۭا فِى ٱلْءَاخِرَةِ ۖ وَلَهُمْ عَذَابٌ عَظِيمٌ ﴾
“And be not grieved by those who vie with one another in denying the truth: verily, they can in no wise harm God. It is God's will that they shall have no share in the [blessings of the] life to come; and tremendous suffering awaits them.”
زندگی کا اصل مسئلہ وہ نہیں جو دکھائی دے رہا ہے۔ اصل مسئلہ وہ ہے جو آنکھوں سے اوجھل ہے۔ لوگ دنیا کے جہنم سے بچنے کی فکر کرتے ہیں اوراپنی ساری توجہ دنیا کی جنت کو حاصل کرنے میں لگا دیتے ہیں۔ مگر زیادہ عقل مندی کی بات یہ ہے کہ آدمی آخرت کے جہنم سے اپنے کو بچائے اور وہاں کی جنت کی طرف دوڑے۔ دنیا میں پیسہ والا ہونا اور بے پیسہ والا ہونا، جائداد والا ہونا اور بے جائداد والا ہونا، عزت والا ہونا اور بے عزت والا ہونا، یہ سب وہ چیزیں ہیں جو ہرآدمی کو آنکھوں سے نظر آتی ہیں۔ اس لیے وہ ان پر ٹوٹ پڑتا ہے۔ وہ اپنی ساری کوشش اس مقصد کے لیے لگا دیتا ہے کہ وہ یہاں محروم نہ رہے۔ مگر انسان کا اصل مسئلہ آخرت کا مسئلہ ہے جس کو اللہ نے امتحان کی مصلحت سے چھپا دیا ہے اور اس سے لوگوں کو خبر دار کرنے کے لیے یہ طریقہ مقرر فرمایا ہے کہ وہ اپنے کچھ بندوں کو غیب کی پیغام بری کے لیے چنے۔ ان کو موت کے اس پار کی حقیقتوں سے خبردار کرے اور پھر ان کو مقرر کرے کہ وہ دوسروں کو اس سے باخبر کردیں۔ انسان کی اصل جانچ یہ ہے کہ وہ خدا کے داعی کی آواز میں سچائی کی جھلکیوںکو پالے، وہ ایک لفظی پکار میں حقیقت کی عملی تصویر دیکھ لے۔ وہ اپنے جیسے ایک انسان کی باتوں میں خدائی بات کی گونج سن لے۔ ایمان یہ ہے کہ آدمی خود پسندی نہ کرے۔ کیوںکہ خود پسندی خدا کے بجائے اپنے آپ کو بڑائی کا مقام دینا ہے۔ وہ دنیا میں غرق نہ ہو۔ کیوں کہ دنیا میں غرق ہونا ظاہر کرتا ہے کہ آدمی آخرت کو اصل اہمیت نہیں دیتا۔ وہ کبر، بخل، ناانصافی اور غیر اللہ کی عقیدت ومحبت سے اپنے کو بچائے اور اس کے بجائے خداپرستی، تواضع، فیاضی اور انصاف پسندی کو اپنا شیوہ بنائے۔ ایسا کرنا ثابت کرتا ہے کہ آدمی اپنے ایمان میں سنجیدہ ہے۔ اس نے فی الواقع اپنے آپ کو خدا اور آخرت کی طرف لگادیا ہے۔ اور ایسا نہ کرنا ظاہر کرتا ہے کہ وہ اپنے ایمان میں سنجیدہ نہیں۔ اقرارِ ایمان کے باوجود عملاً وہ اسی دنیا میں جی رہا ہے جہاں دوسرے لوگ جی رہے ہیں۔ آخرت میں خبیث روحوں اور طیب روحوں کی جو تقسیم ہوگی وہ حقیقت کے اعتبار سے ہوگی، نہ کہ محض ظاہری نمائش کے اعتبار سے — دنیا میں برے لوگوں کو جوڈھیل دی گئی ہے وہ صر ف اس لیے ہے کہ وہ اپنے اندر کی بُرائی کو پوری طرح ظاہر کردیں۔ مگر وہ خواہ کتنی ہی کوشش کریں وہ اہلِ حق کو زیر کرنے میں کامیاب نہیں ہوسکتے۔ وہ اپنی آزادی کو صرف اپنے خلاف استعمال کرسکتے ہیں، نہ کہ دوسروں کے خلاف۔