Aal-i-Imraan • UR-TAZKIRUL-QURAN
﴿ ٱلَّذِينَ قَالُوٓا۟ إِنَّ ٱللَّهَ عَهِدَ إِلَيْنَآ أَلَّا نُؤْمِنَ لِرَسُولٍ حَتَّىٰ يَأْتِيَنَا بِقُرْبَانٍۢ تَأْكُلُهُ ٱلنَّارُ ۗ قُلْ قَدْ جَآءَكُمْ رُسُلٌۭ مِّن قَبْلِى بِٱلْبَيِّنَٰتِ وَبِٱلَّذِى قُلْتُمْ فَلِمَ قَتَلْتُمُوهُمْ إِن كُنتُمْ صَٰدِقِينَ ﴾
“As for those who maintain, "Behold, God has bidden us not to believe in any apostle unless he comes unto us with burnt offerings" - say [unto them, O Prophet]: "Even before me there came unto you apostles with all evidence of the truth, and with that whereof you speak: why, then, did you slay them, if what you say is true?"”
ظاہری طور پر آدمی ایک قول دے کر مومن بن جاتا ہے مگر اللہ کی نظر میں وہ اس وقت مومن بنتا ہے جب کہ وہ اپنی جان اور اپنے مال کو اللہ کی راہ میں دے دے۔ جان ومال کی قربانی کے بغیر کسی کا ایمان اللہ کے یہاں معتبر نہیں۔ آدمی اپنے مال کو اس لیے بچاتا ہے کہ وہ سمجھتا ہے کہ اس طرح وہ اپنے دنیوی مستقبل کا تحفظ کررہا ہے۔ مگر آدمی کا حقیقی مستقبل وہ ہے جو آخرت میں سامنے آنے والا ہے اور آخرت کی دنیا میں ایسا بچایا ہوا مال آدمی کے حق میں صرف وبال ثابت ہوگا۔ جو مال دنیا میں زینت اور فخر کا ذریعہ دکھائی دے رہاہے وہ آخرت میں خداکے حکم سے سانپ کی صورت اختیار کرلے گا جو ابدی طورپر اس کو ڈستارہے۔ جو لوگ قربانی والے دین کو نہیں اپناتے وہ اپنے کو صحیح ثابت کرنے کے لیے مختلف باتیں کرتے ہیں۔ مثلاً یہ کہ یہ مال خدا نے ہماری ضرورت کے لیے پیدا کیا ہے۔ پھر کیوں نہ ہم اس کو اپنی ضرورتوں میں خرچ کریں، اور اس سے اپنے دنیوی آرام کا سامان کریں۔ کبھی ان کی بے حسی ان کو یہاں تک لے جاتی ہے کہ وہ خود داعیٔ حق کو مشتبہ کرنے کے لیے طرح طرح کے شوشے نکالتے ہیں تاکہ یہ ثابت کرسکیں کہ وہ شخص سچا داعی ہی نہیں،جس کا ظہوریہ تقاضا کررہا ہے کہ اپنی زندگی اور اپنے مال کو قربان کرکے اس کا ساتھ دیا جائے۔ اس قسم کے لوگ جو باتیں کہتے ہیں وہ بظاہر دلیل کے روپ میں ہوتی ہیں مگر حقیقۃً وہ ایمانی تقاضوںسے فرار کے لیے ہیں۔ اس لیے خواہ کیسی ہی دلیل پیش کی جائے وہ ا س کو رد کرنے کے لیے کچھ نہ کچھ الفاظ تلاش کرلیں گے۔ یہ وہ لوگ ہیں جو اس بات کو بھول گئے ہیں کہ ان کا آخری انجام موت ہے، اور موت کا مرحلہ سامنے آتے ہی صورت حال بالکل بدل جائے گی۔ موت تمام جھوٹے سہاروں کو باطل کردے گی۔ اس کے بعد آدمی اپنے آپ کو ٹھیک اس مقام پر کھڑا ہوا پائے گا جہاں وہ حقیقۃً تھا، نہ کہ اس مقام پر جہاں وہ اپنے آپ کو ظاہر کررہا تھا — موجودہ دنیا میں کسی کا ترقی کرنا یا موجودہ دنیا میں کسی کا ناکام ہوجانا، دونوں حقیقت کے اعتبار سے ایک ہی سطح کی چیزیں ہیں۔ نہ یہاں کی نعمتیں کسی کے برسر حق ہونے کا ثبوت ہیں، اور نہ کسی کا یہاں مشکلات ومصائب میں مبتلا ہونا، اس کے برسرِ باطل ہونے کا ثبوت۔ کیوں کہ دونوں ہی امتحان کے نقشے ہیں، نہ کہ انجام کی علامتیں۔