Aal-i-Imraan • UR-TAZKIRUL-QURAN
﴿ ۞ لَتُبْلَوُنَّ فِىٓ أَمْوَٰلِكُمْ وَأَنفُسِكُمْ وَلَتَسْمَعُنَّ مِنَ ٱلَّذِينَ أُوتُوا۟ ٱلْكِتَٰبَ مِن قَبْلِكُمْ وَمِنَ ٱلَّذِينَ أَشْرَكُوٓا۟ أَذًۭى كَثِيرًۭا ۚ وَإِن تَصْبِرُوا۟ وَتَتَّقُوا۟ فَإِنَّ ذَٰلِكَ مِنْ عَزْمِ ٱلْأُمُورِ ﴾
“You shall most certainly be tried in your possessions and in your persons; and indeed you shall hear many hurtful things from those to whom revelation was granted before your time, as well as from those who have come to ascribe divinity to other beings beside God. But if you remain patient in adversity and conscious of Him - this, behold, is something to set one's heart upon.”
ایمان کا سفر آدمی کو ایسی دنیا میںطے کرنا ہوتا ہے جہاں اپنوں اور غیروں کی طرف سے طرح طرح کے زخم لگتے ہیں۔ مگر مومن کے لیے ضروری ہوتاہے کہ رد عمل کی نفسیات میں مبتلا نہ ہو، وہ ہر صورت حال کا مثبت جواب دیتے ہوئے آگے بڑھتا رہے۔ لوگوں کی طرف سے اشتعال دلانے والے مواقع پیش آتے ہیں مگر وہ پابند ہوتا ہے کہ ہر قسم کے جھٹکوں کو اپنے اوپر سہے اور جوابی ذہن کے تحت کوئی کارروائی نہ کرے۔ بار بار ایسے معاملات سامنے آتے ہیں جب کہ دل کہتا ہے کہ حدود خداوندی کو توڑ کر اپنا مدعا حاصل كيا جائے مگر اللہ کا ڈر اس کے قدموں کو روک دیتا ہے۔اسی طرح دین کی مختلف ضرورتیں سامنے آتی ہیں اور جان ومال کی قربانی کا تقاضا کرتی ہیں۔ ایسے مواقع پر آسان دین کو چھوڑ کر مشکل دین کو اختیار کرنا پڑتا ہے۔ یہ واقعہ ایمان کے سفر کو ہمت اور عالی حوصلگی کا زبردست امتحان بنا دیتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ مومن بننا اپنے آپ کو صبر اور تقویٰ کے امتحان میںکھڑا کرنا ہے۔ جواس امتحان میں پورا اترا وہی وہ مومن بنا جس کے لیے آخرت میں جنت کے دروازے کھولے جائیں گے۔ آسمانی کتاب کے حامل کسی گروہ پر جب زوال آتا ہے تو ایسا نہیں ہوتا کہ وہ خدا ورسول کا نام لینا چھوڑ دے یا خدا کی کتاب سے اپنی بےتعلقی کا اعلان کردے۔ دین ایسے گروہ کی نسلی روایات میں شامل ہوجاتا ہے۔ وہ اس کا پُر فخر قومی اثاثہ بن جاتا ہے۔اور جس چیز سے اس طرح کا نسلی اور قومی تعلق قائم ہوجائے اس سے علیحدگی کسی گروہ کے لیے ممکن نہیں ہوتی۔ تاہم اس کا یہ تعلق محض رسمی تعلق ہوتا ہے، نہ کہ فی الواقع حقیقی تعلق۔ وہ اپنی دنیوی سرگرمیاں بھی دین کے نام پر جاری کرتے ہیں۔ وہ بے دین ہو کر بھی اپنےکو دین دار کہلانا چاہتے ہیں۔ وہ چاہنے لگتے ہیں کہ ان کو اس کام کا کریڈٹ دیا جائے جس کو انھوں نے کیا نہیں۔ وہ نجاتِ اُخروی سے بے فکر ہو کر زندگی گزارتے ہیں اور اسی کے ساتھ ایسے عقیدے بنا لیتے ہیں جس کے مطابق ان کو اپنی نجات بالکل محفوظ نظر آتی ہے۔ وہ اپنے گھڑے ہوئے دین پر چلتے ہیں مگر اپنے کو دین خداوندی کا عَلَم بردار بتاتے ہیں۔ وہ دنیوی مقاصد کے لیے سرگرم ہوتے ہیں اور اپنی سرگرمیوں کو آخرت کا عنوان دیتے ہیں۔ وہ خود ساختہ سیاست چلاتے ہیں اور اس کو خدائی سیاست ثابت کرتے ہیں۔ وہ قومی مفادات کے لیے اٹھتے ہیں اور اعلان کرتے ہیں کہ وہ خیر الامم کا کردار ادا کرنے کے لیے کھڑے ہوئے ہیں۔ مگر کوئی شخص بے دینی کو دین کہنے لگے تو اس بنا پر وہ اللہ کی پکڑ سے بچ نہیں سکتا ،آدمی دنیا کی طرف دوڑے اور آخرت سے بے پروا ہو جائے تو یہ صرف گمراہی ہے اور اگر وہ اپنے دنیوی کاروبار کو خدا وررسول کے نام پر کرنے لگے تو یہ گمراہی پر ڈھٹائی کا اضافہ ہے۔ کیوں کہ یہ ایسے کام پر انعام چاہنا ہے جس کو آدمی نے انجام ہی نہیں دیا۔