slot qris slot gacor terbaru slot gacor terbaik slot dana link slot gacor slot deposit qris slot pulsa slot gacor situs slot gacor slot deposit qris slot qris bokep indo
| uswah-academy
WhatsApp Book A Free Trial
القائمة

🕋 تفسير الآية 193 من سورة سُورَةُ آلِ عِمۡرَانَ

Aal-i-Imraan • UR-TAZKIRUL-QURAN

﴿ رَّبَّنَآ إِنَّنَا سَمِعْنَا مُنَادِيًۭا يُنَادِى لِلْإِيمَٰنِ أَنْ ءَامِنُوا۟ بِرَبِّكُمْ فَـَٔامَنَّا ۚ رَبَّنَا فَٱغْفِرْ لَنَا ذُنُوبَنَا وَكَفِّرْ عَنَّا سَيِّـَٔاتِنَا وَتَوَفَّنَا مَعَ ٱلْأَبْرَارِ ﴾

“"O our Sustainer! Behold, we heard a voice call [us] unto faith, `Believe in your Sustainer!' - and so we came to believe. O our Sustainer! Forgive us, then, our sins, and efface our bad deeds; and let us die the death of the truly virtuous!”

📝 التفسير:

کائنات اپنے پورے وجود کے ساتھ ایک خاموش اعلان ہے۔ آدمی جب اپنے کان اور آنکھ سے مصنوعی پردوں کو ہٹاتا ہے تو وہ اس خاموش اعلان کو ہر طرف سننے اور دیکھنے لگتا ہے۔ اس کو ناممکن نظر آتا ہے کہ ایک ایسی کائنات جس کے ستارے اور سیارے کھربوں سال تک بھی ختم نہیں ہوتے وہاں انسان اپنی تمام خواہشوں اور تمناؤں کو لیے ہوئے صرف پچاس سال اور سو سال میں ختم ہوجائے۔ ایک ایسی دنیا جہاں درختوں کا حسن اور پھولوں کی لطافت ہے۔ جہاں ہوا اور پانی اور سورج جیسی بے شمار بامعنی چیزوں کا اہتمام کیاگیا ہے وہاںانسان کے لیے حزن اور غم کے سوا کوئی انجام نہ ہو۔ پھر یہ بھی اس کو ناممکن نظر آتا ہے کہ ایک ایسی دنیا جہاں یہ اتھاہ امکان رکھا گیا ہے کہ یہاں ایک چھوٹا سا بیج زمین میںڈالا جائے تو اس کے اندر سے ہرے بھرے درخت کی ایک پوری کائنات نکل آئے وہاں آدمی نیکی کی زندگی اختیار کرکے بھی اس کا کوئی پھل نہ پاتا ہو۔ ایک ایسی دنیا جہاں ہر روز تاریک رات کے بعد روشن دن آتا ہے وہاں صدیاں گزر جائیں اور عدل وانصاف کا اجالا اپنی چمک نہ دکھائے۔ ایک ایسی دنیا جس کی گود میں زلزلے اور طوفان سورہے ہیں۔ وہاں انسان ظلم پر ظلم کر تا رہے مگر کوئی اس کا ہاتھ پکڑنے والا سامنے نہ آئے۔ جو لوگ حقیقتوں میں جیتے ہیں اور گہرائیوں میں اتر کر سوچتے ہیں ان کے لیے ناقابلِ یقین ہوجاتا ہے کہ ایک بامعنی کائنات بے معنی انجام پر ختم ہوجائے۔ وہ جان لیتے ہیں کہ حق کا داعی جو پیغام دے رہا ہے وہ نطق کی زبان میں اسی بات کا اعلان ہے، جو خاموش زبان میں ساری کائنات میں نشر ہورہا ہے۔ ان کے لیے سب سے بڑا مسئلہ یہ بن جاتا ہے کہ جب سچائی کھلے اور جب انصاف کا سورج نکلے تو اس دن وہ ناکام و نامراد نہ ہوجائیں، وہ اپنے رب کو پکارتے ہوئے اس کی طرف دوڑ پڑتے ہیں، وہ مفاد اور مصلحت کی تمام حدود کو توڑ کر داعی حق کے ساتھ ہوجاتے ہیں۔ تاکہ جب کائنات کا ’’اجالا‘‘ اور کائنات کا ’’اندھیرا‘‘ ایک دوسرے سے الگ کيے جائیں تو کائنات کا مالک ان کو اجالے میں جگہ دے، وہ ان کو اندھیرے میں ٹھوکریں کھانے کے لیے نہ چھوڑے۔ عقل اور بے عقلی کا حقیقی پیمانہ اس سے بالکل مختلف ہے جو انسانوں نے بطور خود بنا رکھا ہے۔ یہاں عقل والا وہ ہے جو اللہ کی یاد میں جئے، جو کائنات کے تخلیقی منصوبہ میںکام کرنے والی خدائی معنویت کو پالے۔ اس کے برعکس، بے عقل وہ ہے جو اپنے دل ودماغ کو دوسری دوسری چیزوں میں اٹکائے، جو دنیا میں اس طرح زندگی گزارے جیسے کہ ا س کو مالک کائنات کے تخلیقی منصوبہ کی خبر ہی نہیں۔