Aal-i-Imraan • UR-TAZKIRUL-QURAN
﴿ لَا يَغُرَّنَّكَ تَقَلُّبُ ٱلَّذِينَ كَفَرُوا۟ فِى ٱلْبِلَٰدِ ﴾
“LET IT NOT deceive thee that those who are bent on denying the truth seem to be able to do as they please on earth:”
اہلِ ایمان کی ذمہ دارانہ زندگی ان کو نفس کی آزادیوں سے محروم کردیتی ہے۔ ان کے اعلانِ حق میں بہت سے لوگوں کو اپنے وجود کی تردید دکھائی دینے لگتی ہے اور وہ ان کے دشمن بن جاتے ہیں۔ یہ صورت حال کبھی اتنی شدید ہوجاتی ہے کہ وہ اپنے وطن میں بے وطن کرديے جاتے ہیں۔ ان کو مخالفین کی ظالمانہ کارروائیوں کے مقابلہ میں کھڑا ہونا پڑتا ہے۔اللہ کے دین کو انھیں جان ومال کی قربانی کی قیمت پر اختیار کرنا ہوتا ہے۔ ان امتحانات میں پورا اترنے کے لیے اہل ایمان کو جو کچھ کرنا ہے وہ یہ کہ وہ دنیا کی مصلحتوں کی خاطر آخرت کی مصلحتوں کو بھول نہ جائیں۔ وہ مشکلات اور ناخوش گواریوں پر صبر کریں، وہ اپنے اندر ابھرنے والے منفی جذبات کو دبائیں اور متاثر ذہن کے تحت کوئی کارروائی نہ کریں۔ پھر ان کو باہر کے حریفوں کے مقابلے میں ثابت قدم رہنا ہے۔ یہ ثابت قدمی ہی وہ چیز ہے جو اللہ کی نصرت کو اپنی طرف کھینچتی ہے۔ اسی کے ساتھ ضروری ہے کہ تمام اہلِ ایمان آپس میں ایک دوسرے کے ساتھ بندھے رہیں، وہ دینی جدوجہد کے لیے باہم جڑ جائیں اور ایک جان ہو کر اجتماعی قوت سے مخالف طاقتوں کا مقابلہ کریں۔ ایمان دراصل صبر کا امتحان ہے اور اس امتحان میںوہی شخص پورا اترتا ہے جو اللہ سے ڈرنے والا ہو۔ دنیا میں اکثر ایسا ہوتا ہے کہ خدا سے بے خوف اور آخرت سے بے پروا لوگوں کو زور اور غلبہ حاصل ہوجاتا ہے۔ ہر قسم کی عزتیں اور رونقیں ان کے گرد جمع ہوجاتی ہیں۔ دوسری طرف اہل ایمان اکثر حالات میں بے زور بنے رہتے ہیں۔ شان وشوکت کا کوئی حصہ ان کو نہیں ملتا۔ مگر یہ صورت حال انتہائی عارضی ہے۔ قیامت آتے ہی حالات بالکل بدل جائیں گے۔ بے خوفی کے راستہ سے دنیا کی عزتیں سمیٹنے والے رسوائی کے گڑھے میں پڑے ہوں گے اور خوفِ خدا کی وجہ سے بے حیثیت ہوجانے والے ہر قسم کی ابدی عزتوں اور کامیابیوں کے مالک ہوں گے۔ وہ اللہ کے مہمان ہوں گے اور اللہ کی مہمانی سے زیادہ بڑی کوئی چیز اس زمین وآسمان کے اندر نہیں۔