Aal-i-Imraan • UR-TAZKIRUL-QURAN
﴿ فَإِنْ حَآجُّوكَ فَقُلْ أَسْلَمْتُ وَجْهِىَ لِلَّهِ وَمَنِ ٱتَّبَعَنِ ۗ وَقُل لِّلَّذِينَ أُوتُوا۟ ٱلْكِتَٰبَ وَٱلْأُمِّيِّۦنَ ءَأَسْلَمْتُمْ ۚ فَإِنْ أَسْلَمُوا۟ فَقَدِ ٱهْتَدَوا۟ ۖ وَّإِن تَوَلَّوْا۟ فَإِنَّمَا عَلَيْكَ ٱلْبَلَٰغُ ۗ وَٱللَّهُ بَصِيرٌۢ بِٱلْعِبَادِ ﴾
“Thus, [O Prophet,] if they argue with thee, say, "I have surrendered my whole being unto God, and [so have] all who follow me!" - and ask those who have been vouchsafed revelation aforetime, as well as all unlettered people, "Have you [too] surrendered yourselves unto Him?" And if they surrender themselves unto Him, they are on the right path; but if they turn away - behold, thy duty is no more than to deliver the message: for God sees all that is in [the hearts of] His creatures.”
کائنات کا خدا ایک ہی خداہے اور وہ عدل وقسط کو پسند کرتا ہے۔ تمام آسمانی کتابیں اپنی صحیح صورت میں اسی کا اعلان کررہی ہیں۔ پھیلی ہوئی کائنات جس كو اس کا مالک اپنے غیر مرئی کارندوں (فرشتوں) کے ذریعہ چلا رہا ہے وہ کامل طور پر ویسی ہی ہے جیسا کہ اس کو ہونا چاہیے۔ ثابت شدہ علم انسانی کے مطابق کائنات ایک حد درجہ وحدانی نظام ہے، اس سے واضح ہوتا ہے کہ کائنات کا مدبر صرف ایک ہے۔ اسی طرح کائنات کی ہر چیز کا اپنے محل مناسب میں ہونا اس بات کا ثبوت ہے کہ اس کاخدا عد ل کو پسند کرنے والا خدا ہے، نہ کہ بے انصافی کو پسند کرنے والا۔ پھر جو خدا وسیع تر کائنات میں مسلسل عدل کو قائم کيے ہوئے ہو وہ انسان کے معاملے میں خلافِ عدل باتوں پرکیسے راضی ہوجائے گا۔ کائنات کا ہر جزء کامل طورپر ’’مسلم‘‘ ہے۔ یعنی اپنی سرگرمیوں کو اللہ کے مقررہ نقشہ کے مطابق انجام دیتا ہے۔ ٹھیک یہی رویہ انسان سے بھی مطلوب ہے۔ انسان کو چاہیے کہ وہ اپنے رب کو پہچانے اور اس کے مطلوبہ نقشہ کے مطابق اپنی زندگی کو ڈھال لے۔ اللہ کے سوا کسی اور کو اپنا مرکز توجہ بنانا یا یہ خیال کرنا کہ اللہ کا فیصلہ عدل کے سوا کسی اور بنیاد پر ہوسکتا ہے، ایسی بے اصل بات ہے جس کے لیے موجودہ کائنات میں کوئی گنجائش نہیں۔ قرآن کی دعوت اسی سچے اسلام کی دعوت ہے۔ جو لوگ اس سے اختلاف کررہے ہیں اس کی وجہ یہ نہیں هے کہ اس کا حق ہونا ان پر واضح نہیں ہے۔ اس کی وجہ ضد ہے۔ اس کو ماننا انھیں داعیٔ قرآن کی فکری برتری تسلیم کرنے کے ہم معنی نظر آتا ہے، اور ان کی حسد اور کبر کی نفسیات اس قسم کا اعتراف کرنے پر راضی نہیں۔ سیدھی طرح حق کو مان لینے کے بجائے وہ چاہتے ہیں کہ اس زبان ہی کو بند کردیں جو حق کا اعلان کررہی ہے۔ تاہم خدا کی دنیا میں ایسا ہونا ممکن نہیں۔ داعیٔ حق کی زبان کو بند کرنے کے لیے ان کا ہر منصوبہ ناکام ہوگا اور جب خدا کے عد ل کا ترازو کھڑا ہوگا تو وہ دیکھ لیں گے کہ ان کے وہ اعمال کس قدر بے قیمت تھے جن کے بل پر وہ اپنی نجات اور کامیابی کا یقین کيے ہوئے تھے — سچی دلیل خدا کی نشانی ہے۔ جو شخص دلیل کے سامنے نہیں جھکتا وہ گویا خدا کے سامنے نہیں جھکتا۔ ایسے لوگ قیامت میں اس طرح اٹھیں گے کہ وہ سب سے زیادہ بے سہارا ہوں گے۔