Aal-i-Imraan • UR-TAZKIRUL-QURAN
﴿ يَوْمَ تَجِدُ كُلُّ نَفْسٍۢ مَّا عَمِلَتْ مِنْ خَيْرٍۢ مُّحْضَرًۭا وَمَا عَمِلَتْ مِن سُوٓءٍۢ تَوَدُّ لَوْ أَنَّ بَيْنَهَا وَبَيْنَهُۥٓ أَمَدًۢا بَعِيدًۭا ۗ وَيُحَذِّرُكُمُ ٱللَّهُ نَفْسَهُۥ ۗ وَٱللَّهُ رَءُوفٌۢ بِٱلْعِبَادِ ﴾
“On the Day when every human being will find himself faced with all the good that he has done, and with all the evil that he has done, [many a one] will wish that there were a long span of time between himself and that [Day]. Hence, God warns you to beware of Him; but God is most compassionate towards His creatures.”
مومن تمام انسانوں کے ساتھ نیکی اور عدل کا سلوک کرنے والا ہوتا ہے۔ اس میں مسلم اور غیر مسلم کی کوئی تفریق نہیں۔ مگر جب غیر مسلموں کے ساتھ دوستی مسلمانوں کے مفاد کی قیمت پر ہو تو ایسی دوستی مسلمان کے لیے جائز نہیں۔ تاہم بچاؤ کی تدبیر کے طورپراگر کسی وقت ایک مسلمان یا کسی مسلم گروہ کو غیر مسلموں سے وقتی تعلق قائم کرنا پڑے تو اس میں کوئی حرج نہیں۔ اللہ نیت کو دیکھتا ہے اور جب نیت درست ہو تو وہ کسی کو اس کے عمل پر نہیں پکڑتا۔ تمام معاملات میں اصل قابل لحاظ چیز اللہ کا خوف ہے۔ آدمی کسی معاملہ میں جو رویہ اختیار کرے، اس کو اچھی طرح سوچ لینا چاہیے کہ اللہ اس کا حساب لے گا۔ اور اس کے انصاف کے ترازو میں جو غلط ٹھہرے گا وہ اس کی سزا پاکر رہے گا۔ اللہ سے کسی انسان کی کوئی بات اوجھل نہیں، خواہ وہ اس نے چھپ کر کی ہو یا علانیہ کی ہو۔ جب امتحان کا پردہ ہٹے گا او آخرت کا عالم سامنے آئے گا تو آدمی کے اعمال کی پوری کھیتی اس کے سامنے ہوگی۔ یہ منظر اتنا ہولناک ہوگا کہ وہ چیزیں جو دنیا میں اس کے نفس کی لذت بنی ہوئی تھیں، وہ چاہے گا کہ وہ اس سے بہت دور چلی جائیں۔ اللہ کسی کے اسلام کو جہاں دیکھتا ہے وہ اس کا قلب ہے۔ مومن وہی ہے جس کا اللہ سے تعلق قلبی محبت کی حد تک قائم ہوجائے۔ ایسے ہی لوگ ہیں جو اللہ کی محبت و توجہ کا مستحق بنتے ہیں۔ اور جو شخص اللہ سے اس طرح تعلق قائم کرے، اس سے اگر کوتاہیاں بھی ہوتی ہیں تو اللہ اس سے درگزر فرماتا ہے۔ اللہ سرکشوں کے لیے بہت سخت ہے۔ مگر جو لوگ عاجزی کا رویہ اختیار کریں، وہ ان کے لیے نرم پڑجاتا ہے۔ یہ ایک نفسیاتی حقیقت ہے کہ جس سینہ میں کسی کی محبت موجودہو اسی سینہ میں محبوب کے دشمن کی محبت جمع نہیں ہوسکتی ۔ اسی کے ساتھ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ محبوب اگر ایسی ہستی ہو جو آدمی کے لیے آقا ومالک کادرجہ رکھتی ہو تو اس کے ساتھ محبت صرف محبت کی حد تک نہ رہے گی بلکہ لازماً وہ اطاعت وفرماں برداری کا جذبہ پیدا کرے گی۔ خدا کی جس محبت کے بعد خدا کے دشمنوں سے قلبی تعلق ختم نہ ہو یا اس کی اطاعت و فرماں برداری کا جذبہ پیدا نہ ہو تو وہ جھوٹی محبت ہے۔ایسے شخص کا شمار اللہ کے یہاں انکار کرنے والوں میں ہوگا، نہ کہ ماننے والوں میں— رسو ل وہ شخص ہے جس کے کامل خدا پرست ہونے کی گواہی خود خدا نے دی ہے، اس لیے خدا پرستانہ زندگی کے لیے رسول کا نمونہ ہی موجودہ دنیا میں واحد مستند نمونہ ہے۔