Aal-i-Imraan • UR-TAZKIRUL-QURAN
﴿ وَيُكَلِّمُ ٱلنَّاسَ فِى ٱلْمَهْدِ وَكَهْلًۭا وَمِنَ ٱلصَّٰلِحِينَ ﴾
“And he shall speak unto men in his cradle, and as a grown man, and shall be of the righteous."”
یہود کی نسل کو اللہ نے اس خاص منصب کے لیے چن لیا تھا کہ ان پر اپنی ہدایت اتارے تاکہ وہ خود اللہ کے راستے پر چلیں اور دوسروں کو اس سے آگاہ کریں۔ مگر بعد کے زمانے میں یہود کے اندر بگاڑ آگیا۔ حتی کہ اللہ کی نظر میں وہ اس قابل نہ رہے کہ آسمانی ہدایت کے امین بن سکیں۔ اب اللہ کا فیصلہ یہ ہوا کہ یہ امانت ان سے چھین کر آل ابراہیم کی دوسری شاخ (بنی اسماعیل) کو دے دی جائے۔ اس فیصلہ کے نفاذ سے پہلے یہود پر اتمام حجت ضروری تھا۔ حضرت مسیح اسی اتمام حجت کے لیے بھیجے گئے۔ آنجناب کی فوق العادت پیدائش اور آپ کو غیر معمولی معجزات کا دیا جانا اسی لیے تھا کہ یہود کو اس بار ے میں کوئی شبہ نہ رہے کہ آپ خدا کے بھیجے ہوئے ہیں اور خدا کی طرف سے بول رہے ہیں۔ حضرت مسیح اپنے ساتھ نہ صرف فوق الفطری نشانیاں رکھتے تھے بلکہ وہ اتنے مؤثر اور مدلل انداز میں بولتے تھے کہ ان کے زمانہ میں کوئی اس طرح بولنے پر قادر نہ تھا۔ پہلی بار جب آپ نے یروشلم کے ہیکل میں تقریر کی تو یہودی علما آپ کی باتوں کو سن کر دنگ رہ گئے (لوقا ۲:۴۸) یہ ان کی معجز نما شخصیت اور ان کے مبہوت کردینے والے کلام ہی کا اثر تھا کہ اگر چہ آپ بغیر باپ کے پیدا ہوئے تھے مگر آپ کے سامنے کسی کو جرأت نہ ہوسکی کہ اس پہلو سے آپ کو مطعون کرے۔ تاہم یہود اتنے بے حس اور اتنے سرکش ہوچکے تھے کہ انتہائی کھلے کھلے دلائل سامنے آجانے کے باوجود انھوں نے آپ کو ماننے سے انکار کردیا۔ ’’اس میں نشانی ہے ایمان والوں کے لیے‘‘ — یعنی جو دلیل پیش کی جارہی ہے وہ بذات خود اگر چہ مکمل ہے مگر وہ اسی شخص کے لیے دلیل بنے گی جو ماننے کا مزاج رکھتا ہو۔ جس کے اندر یہ صلاحیت ہو کہ اپنے خیالات کے کہر سے باہر آکر دلیل پر غور کرے۔ جس کی فطرت اس حد تک زندہ ہو کہ ذاتی وقار کا سوال اس کے لیے حق کو قبول کرنے میں رکاوٹ نہ بنے۔