Aal-i-Imraan • UR-TAZKIRUL-QURAN
﴿ وَلَا يَأْمُرَكُمْ أَن تَتَّخِذُوا۟ ٱلْمَلَٰٓئِكَةَ وَٱلنَّبِيِّۦنَ أَرْبَابًا ۗ أَيَأْمُرُكُم بِٱلْكُفْرِ بَعْدَ إِذْ أَنتُم مُّسْلِمُونَ ﴾
“And neither did he bid you to take the angels and the prophets for your lords: [for] would he bid you to deny the truth after you have surrendered yourselves unto God?”
ایک شخص جب ایمان لاتا ہے تو وہ اللہ سے اس بات کا عہد کرتا ہے کہ وہ اس کی فرماں برداری کرے گا اور بندوں کے درمیان زندگی گزارتے ہوئے ان تمام ذمہ داریوں کو پورا کرے گا جو خدا کی شریعت کی طرف سے اس پر عائد ہوتی ہے۔ یہ ایک پابند زندگی ہے جس کو عہد کی زندگی سے تعبیر کیا جاسکتا ہے۔ اس زندگی پر قائم ہونے کے لیے نفس کی آزادیوں کو ختم کرنا پڑتا ہے، بار بار اپنے فائدوں اور مصلحتوں کی قربانی دینی پڑتی ہے۔ اس لیے اس عہد کی زندگی کو وہی شخص نباہ سکتا ہے جو نفع نقصان سے بے نیاز ہو کر اس کو اختیار کرے۔ جس شخص کا حال یہ ہو کہ نفس پر چوٹ پڑے یا دنیا کا مفاد خطرہ میں نظر آئے تو وہ عہد خداوندی کو نظر انداز کردے اور اپنے فائدوں اور مصلحتوں کی طرف جھک جائے، اس نے گویا آخرت کو دے کر دنیا خریدی۔ جب آخرت کے پہلو اور دنیا کے پہلو میں سے کسی ایک کو لینے کا سوا ل آیا تو اس نے دنیا کے پہلو کو ترجیح دی۔ جو شخص آخرت کو اتنی بے قیمت چیز سمجھ لے وہ آخرت میںاللہ کی عنایتوں کا حق دار کس طرح ہوسکتا ہے۔ جو لوگ آخر ت کو اپنی دنیا کا سودا بنائیں وہ دین یا آخرت کے منکر نہیں ہوجاتے۔ بلکہ دین اور آخرت کے پورے اقرار کے ساتھ ایسا کرتے ہیں۔ پھر ان دو متضاد رویوں کو وہ کس طرح ایک دوسرے کے مطابق بناتے ہیں۔ اس کا ذریعہ تحریف ہے، یعنی آسمانی تعلیمات کو خود ساختہ معنی پہنانا۔ ایسے لوگ اپنی دنیا پرستانہ روش کو آخرت پسندی اور خدا پرستی ثابت کرنے کے لیے دینی تعلیمات کو اپنے مطابق ڈھال لیتے ہیں۔ کبھی خدا کے الفاظ کو بدل کر اور کبھی خدا کے الفاظ کی اپنی مفید مطلب تشریح کرکے۔ وہ اپنے آپ کو بدلنے کے بجائے کتاب الٰہی کو بدل دیتے ہیں تاکہ جو چیز کتاب الٰہی میں نہیں ہے اس کو عین کتاب الٰہی کی چیز بنا دیں، اپنی بے خدا زندگی کو باخدا زندگی ثابت کردکھائیں۔ اللہ کے نزدیک یہ بد ترین جرم ہے کہ آدمی اللہ کی طرف ایسی بات منسوب کرے جو اللہ نے نہ کہی ہو۔ کسی تعلیم کی صداقت کی سادہ اور یقینی پہچان یہ ہے کہ وہ اللہ کے بندوں کو اللہ سے ملائے، لوگوں کے خوف ومحبت کے جذبات کو بیدار کرکے اس کو اللہ کی طرف موڑ دے۔ اس کے برعکس، جو تعلیم شخصیت پرستی یا اور کوئی پرسـتی پیدا کرے، جو انسان کے نازک جذبات کا مرکز توجہ کسی غیر خدا کو بناتی ہو، اس کے متعلق سمجھنا چاہیے کہ وہ سراسر باطل ہے خواہ بظاہر اپنے اوپر اس نے حق کا لیبل کیوں نہ لگا رکھا ہو۔