Aal-i-Imraan • UR-TAZKIRUL-QURAN
﴿ إِنَّ ٱلَّذِينَ كَفَرُوا۟ وَمَاتُوا۟ وَهُمْ كُفَّارٌۭ فَلَن يُقْبَلَ مِنْ أَحَدِهِم مِّلْءُ ٱلْأَرْضِ ذَهَبًۭا وَلَوِ ٱفْتَدَىٰ بِهِۦٓ ۗ أُو۟لَٰٓئِكَ لَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌۭ وَمَا لَهُم مِّن نَّٰصِرِينَ ﴾
“Verily, as for those who are bent on denying the truth and die as deniers of the truth - not all the gold on earth could ever be their ransom. It is they for whom grievous suffering is in store; and they shall have none to succour them.”
اللہ کو پانا ایک ابدی حقیقت کو پانا ہے،یہ پوری کائنات کا ہم سفر بننا ہے۔ جو لوگ اس طرح اللہ کو پالیں وہ ہر قسم کے تعصبات سے اوپر اٹھ جاتے ہیں۔ وہ حق کو ہر حال میں پہچان لیتے ہیں، چاہے اس کا پیغام ’’اسرائیلی پیغمبر‘‘ کی زبان سے بلند ہو یا ’’اسماعیلی پیغمبر‘‘ کی زبان سے۔ مگر جو لوگ گروہ پرستی کی سطح پر جی رہے ہوں، حق ان کو حق کی صورت میں صرف اس وقت نظر آتا ہے جب کہ وہ ان کے اپنے گروہ کے کسی فرد کی طرف سے آئے۔ اللہ اگر ان کے گروہ سے باہر کسی شخص کو اپنے پیغام کی پیغام رسانی کے لیے اٹھائے تو ایسا پیغام ان کے ذہن کا جزء نہیں بنتا۔ حتی کہ اس وقت بھی نہیں جب کہ ان کا دل اس کے حق وصداقت ہونے کی گواہی دے رہا ہو۔ ایسے لوگ خواہ اپنے کو ماننے والوں میں شمار کریں مگر اللہ کے یہاں ان کا نام نہ ماننے والوں میں لکھا جاتا ہے۔ کیوں کہ انھوں نے حق کو اپنے گروہ کی نسبت سے جانا، نہ کہ اللہ کی نسبت سے۔ ایسے حق کا اقرار نہ کرنا جس کے حق ہونے پر آدمی کے دل نے گواہی دی ہو، اللہ کے نزدیک بدترین جرم ہے۔ ایسے لوگ آخرت میں اتنے ذلیل ہوں گے کہ اللہ اور اس کی تمام مخلوقات ان پر لعنت کریں گی۔ اپنے سے باہر ظاہر ہونے والے حق کاا عتراف نہ کرنا بظاہر اپنے ایمان کو بچانا ہے۔ مگر حقیقۃً یہ اپنے ایمان کو برباد کرنا ہے۔ اللہ کا مومن بندہ اللہ کے مسلسل فیضان پر جیتا ہے۔ پھر جو شخص اپنے کو خود پرستی اور گروہ پرستی کے خول میں بند کرلے اس کے اندر اللہ کا فیضان کس راستہ سے داخل ہوگا۔ اور اللہ کے فیضان سے محرومی کے بعد وہ کیا چیز ہوگی جو اس کے ایمان کی پرورش کرے۔