Ar-Room • UR-TAZKIRUL-QURAN
﴿ ضَرَبَ لَكُم مَّثَلًۭا مِّنْ أَنفُسِكُمْ ۖ هَل لَّكُم مِّن مَّا مَلَكَتْ أَيْمَٰنُكُم مِّن شُرَكَآءَ فِى مَا رَزَقْنَٰكُمْ فَأَنتُمْ فِيهِ سَوَآءٌۭ تَخَافُونَهُمْ كَخِيفَتِكُمْ أَنفُسَكُمْ ۚ كَذَٰلِكَ نُفَصِّلُ ٱلْءَايَٰتِ لِقَوْمٍۢ يَعْقِلُونَ ﴾
“He propounds unto you a parable drawn from your own life: Would you [agree to] have some of those whom your right hands possess as [full-fledged] partners in whatever We may have bestowed upon you as sustenance, so that you [and they] would have equal shares in it, and you would fear [to make use of it without consulting] them, just as you might fear [the more powerful of] your equals? Thus clearly do We spell out these messages unto people who use their reason.”
ایک مشترک مال یا جائداد ہو تو اس میں اس کے تمام شرکاء کا حق ہوتاہے اور ہر شریک کو دوسرے شریک کا لحاظ رکھنا پڑتا ہے۔ مگرخدا کا معاملہ اس قسم کا معاملہ نہیں۔ خدا تنہا تمام کائنات کا مالک ہے۔ خداکےلیے صحیح مثال آقا اور غلام کی ہے، نہ کہ شرکاء جائداد کی۔ خدا اور اس کی مخلوقات کے درمیان زیادہ بڑے پیمانے پر وہی نسبت ہے جو ایک آقا اور ایک غلام کے درمیان پائی جاتی ہے۔ کوئی شخص اپنے غلام یا نوکر کو اپنے برابر کا درجہ نہیں دیتا۔ اسی طرح کائنات میں کوئی بھی نہیں ہے جس کو خدا کے ساتھ برابری کی حیثیت حاصل ہو۔ خدا کی طرف صرف آقائی ہے اور بقیہ مخلوقات کی طرف صرف محکومی اور غلامی۔ مخلوقات کا اپنے اپنے تخلیقی نظام کا پابند ہونا بتاتا ہے کہ خدا اور مخلوقات کے درمیان صحیح نسبت آقا اور غلام کی ہے۔ اس کے سوا جو نسبت بھی قائم کی جائے گی اس کی بنیاد محض انسانی مفروضے پر ہوگی، نہ کہ کسی واقعی دلیل پر۔