Luqman • UR-TAZKIRUL-QURAN
﴿ يَٰٓأَيُّهَا ٱلنَّاسُ ٱتَّقُوا۟ رَبَّكُمْ وَٱخْشَوْا۟ يَوْمًۭا لَّا يَجْزِى وَالِدٌ عَن وَلَدِهِۦ وَلَا مَوْلُودٌ هُوَ جَازٍ عَن وَالِدِهِۦ شَيْـًٔا ۚ إِنَّ وَعْدَ ٱللَّهِ حَقٌّۭ ۖ فَلَا تَغُرَّنَّكُمُ ٱلْحَيَوٰةُ ٱلدُّنْيَا وَلَا يَغُرَّنَّكُم بِٱللَّهِ ٱلْغَرُورُ ﴾
“O MEN! Be conscious of your Sustainer, and stand in awe of the Day on which no parent will be of any avail to his child, nor a child will in the least avail his parent! Verily, God’s promise [of resurrection] is true indeed: let not, then, the life of this world deludes you, and let not [your own] deceptive thoughts about God delude you!”
موجودہ دنیا میںامتحان کی مصلحت سے لوگوں کو آزادی دی گئی ہے۔ اس امتحانی آزادی کو آدمی حقیقی آزادی سمجھ لیتاہے۔ یہی سب سے بڑا دھوکا ہے۔ تمام انسانی برائیاں اسی دھوکہ کی وجہ سے پیداہوتی ہیں۔ یہاں بظاہر ایسا معلوم ہوتا ہے کہ انسان جو چاہے کرے کوئی اس کو پکڑنے والا نہیں۔ حالاں کہ آخر کار آدمی کے اوپر اتنا کٹھن وقت آنے والا ہے کہ باپ بیٹا بھی ایک دوسرے کا ساتھ دینے والے نہ بن سکیں گے۔ ’’قیامت آنے والی ہے تو وہ کب آئے گی‘‘ ایسا سوال کرنا اپنی حد سے تجاوز کرناہے۔ انسان اپنی قریبی اور معلوم دنیا کے بارے میں بھی کل کی خبر نہیں رکھتا۔ مثلاً بارش، پیٹ کا بچہ، معاشی مستقبل، موت، ان چیزوں کے بارے میں کوئی قطعی پیشین گوئی نہیں کی جاسکتی۔ تاہم اس علمی محدودیت کے باوجود انسان ان حقیقتوں کے واقعہ ہونے کو مانتا ہے۔ اسی طرح قیامت کی گھڑی کے بارے میں بھی اس کو مجمل خبر کی بنیاد پر یقین کرنا چاہيے۔