Faatir • UR-TAZKIRUL-QURAN
﴿ وَلَا تَزِرُ وَازِرَةٌۭ وِزْرَ أُخْرَىٰ ۚ وَإِن تَدْعُ مُثْقَلَةٌ إِلَىٰ حِمْلِهَا لَا يُحْمَلْ مِنْهُ شَىْءٌۭ وَلَوْ كَانَ ذَا قُرْبَىٰٓ ۗ إِنَّمَا تُنذِرُ ٱلَّذِينَ يَخْشَوْنَ رَبَّهُم بِٱلْغَيْبِ وَأَقَامُوا۟ ٱلصَّلَوٰةَ ۚ وَمَن تَزَكَّىٰ فَإِنَّمَا يَتَزَكَّىٰ لِنَفْسِهِۦ ۚ وَإِلَى ٱللَّهِ ٱلْمَصِيرُ ﴾
“AND NO BEARER of burdens shall be made to bear another’s burden; and if one weighed down by his load calls upon [another] to help him carry it, nothing thereof may be carried [by that other], even if it be one’s near of kin. Hence, thou canst [truly] warn only those who stand in awe of their Sustainer although He is beyond the reach of their perception, and are constant in prayer, and [know that] whoever grows in purity, attains to purity but for the good of his own self, and [that] with God is all journeys’ end.”
موجودہ دنیا میں انسان انتہائی حد تک غیر محفوظ (vulnerable) ہے۔ انسان کا سارا معاملہ فطرت کے خاص توازن پر منحصر ہے۔ یہ توازن باقی نہ رہے تو ایک لمحہ میں انسانی زندگی کا خاتمہ ہوجائے۔ سورج اگر اپنے موجودہ فاصلہ کو ختم کرکے زمین کے قریب آجائے تو اچانک تمام انسان جل بھن کر خاک ہوجائیں۔زمین کے اندر اس کا بڑا حصہ بے حد گرم مادہ کی صورت میں ہے۔ اس گرم مادہ کی حرکت اوپر کی طرف ہوجائے تو سطح زمین پر ایسا زلزلہ پیداہو کہ تمام آبادیاں کھنڈر بن کر رہ جائیں۔ اوپر ی فضا سے ہر وقت شہابی پـتھر (meteors) برستے رہتے ہیں۔ اگر موجودہ انتظام بگڑ جائے تو یہ شہابئے ایک ایسی سنگ باری کی صورت اختیار کرلیں جس سے کسی حال میں بھی بچاؤ ممکن نہ ہو۔ اس طرح کے بے شمار ہلاکت خیز امکانات ہر وقت انسان کو گھیرے میں ليے ہوئے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ انسان ایک ایسی مخلوق ہے جو مکمل طورپر محتاج ہے۔ انسان کو خدا کی ضرورت ہے، نہ کہ خدا کو انسان کی ضرورت۔ قیامت کا بوجھ خود اپنے گناہوں کا بوجھ ہوگا، نہ کہ اینٹ پتھر کا بوجھ۔ اینٹ پتھر کے بوجھ میں ایک شخص کسی دوسرے شخص کا حصہ دار بن سکتا ہے مگر خود اپنے برے عمل سے جو رسوائی اور تکلیف کسی شخص کو لاحق ہو وہ انتہائی ذاتی نوعیت کا عذاب ہوتاہے۔ اس میں کسی دوسرے کےلیے حصہ دار بننے کا سوال نہیں۔ حقیقت نہایت واضح ہے مگر حقیقت کو وہی شخص سمجھتا ہے جو اس کو سمجھنا چاہے۔ جو شخص اس بارے میں سنجیدہ ہی نہ ہو کہ حقیقت کیا ہے، اور بے حقیقت کیا، اس کو کوئی بات سمجھائی نہیں جاسکتی۔