Faatir • UR-TAZKIRUL-QURAN
﴿ وَمَا يَسْتَوِى ٱلْأَحْيَآءُ وَلَا ٱلْأَمْوَٰتُ ۚ إِنَّ ٱللَّهَ يُسْمِعُ مَن يَشَآءُ ۖ وَمَآ أَنتَ بِمُسْمِعٍۢ مَّن فِى ٱلْقُبُورِ ﴾
“and neither are equal the living and the dead [of heart]. Behold, [O Muhammad,] God can make hear whomever He wills, whereas thou canst not make hear such as are [dead of heart like the dead] in their graves:”
یہ ایک حقیقت ہے کہ جو امید روشنی سے کی جاسکتی ہے وہ تاریکی سے نہیں کی جاسکتی۔ اسی طرح سایہ سے جو چیز ملے گی وہ دھوپ سے ملنے والی نہیں۔ یہی معاملہ انسان کا ہے۔ انسانوں میں کچھ آنکھ والے ہوتے ہیں اور کچھ اندھے ہوتے ہیں ۔ آنکھ والا فوراً اپنے راستہ کو دیکھ کر اسے پہچان لیتاہے۔ مگر جو اندھا ہو وہ صرف بھٹکتا پھرے گا۔ اس کو کبھی اپنے راستہ کی پہچان نہیں ہوسکتی۔ اسی طرح اندرونی معرفت کے اعتبار سے بھی دو قسم کے لوگ ہوتے ہیں۔ ایک جان دار اور دوسرے بے جان۔ جاندار انسان وہ ہے جو باتوںکو اس کی گہرائی کے ساتھ دیکھتا ہے۔ جو لفظی فریب کا پردہ پھاڑ کر معانی کا ادراک کرتا ہے۔ جو سطحی پہلوؤں سے گزر کر حقیقتِ واقعہ کو جاننے کی کوشش کرتا ہے، جو چیزوں کو ان کے جوہر کے اعتبار سے پرکھتا ہے، نہ کہ محض ان کے ظاہر کے اعتبار سے۔ جس کی نگاہ ہمیشہ اصل حقیقت پر رہتی ہے، نہ کہ غیرمتعلق موشگافیوں پر۔ جو اس کا تحمل نہیں کرسکتا کہ سچائی کو جان لینے کے بعد وہ اپنے آپ کو اس سے وابستہ نہ کرے۔ یہی جاندار لوگ ہیں۔ اور یہی وہ لوگ ہیں جن کو موجودہ دنیا میں حق کو قبول کرنے کي توفیق ملتی ہے۔ اور جو لوگ اس کے برعکس صفات رکھتے ہوں، وہ مردہ انسان ہیں۔ وہ امتحان کی اس دنیا میں کبھی قبول حق کی توفیق نہیں پاتے۔ وہ دعوت حق کے مقابلہ میں اندھے بنے رہتے ہیں۔ یہاں تک کہ مرکر خدا کے یہاں چلے جاتے ہیں تاکہ اپنے اندھے پن کا انجام بھگتیں۔