Faatir • UR-TAZKIRUL-QURAN
﴿ أَلَمْ تَرَ أَنَّ ٱللَّهَ أَنزَلَ مِنَ ٱلسَّمَآءِ مَآءًۭ فَأَخْرَجْنَا بِهِۦ ثَمَرَٰتٍۢ مُّخْتَلِفًا أَلْوَٰنُهَا ۚ وَمِنَ ٱلْجِبَالِ جُدَدٌۢ بِيضٌۭ وَحُمْرٌۭ مُّخْتَلِفٌ أَلْوَٰنُهَا وَغَرَابِيبُ سُودٌۭ ﴾
“ART THOU NOT aware that God sends down water from the skies, whereby We bring forth fruits of many hues - just as in the mountains there are streaks of white and red of various shades, as well as (others) raven-black,”
بادل سے ایک ہی پانی برستاہے مگر اس سے مختلف قسم کی چیزیں اگتی ہیں۔ اچھے درخت بھی اور جھاڑ جھنکاڑ بھی۔ اسی طرح ایک ہی مادہ ہے جو پہاڑوں کی صورت میں منجمد ہوتاہے مگر ان میں کچھ سرخ وسفید ہیں اور کچھ بالکل کالے۔ اسی طرح جاندار بھی سب ایک غذا کھاتے ہیں۔ مگر ان میں سے کوئی انسان کےلیے کار آمد ہے اور کوئی بے کار۔ اس سے معلوم ہوا کہ فیض خواہ عام ہو مگر اس سے فائدہ ہر ایک کو اس کی اپنی استعداد کے مطابق پہنچتا ہے۔ یہی معاملہ انسان کا بھی ہے۔ دعوتِ حق کی صورت میں خدا کی جو رحمت بکھیری جاتی ہے وہ اگرچہ بذات خود ایک ہوتی ہے مگر مختلف انسان اپنے اندرونی مزاج کے مطابق اس سے مختلف قسم کا تاثر قبول کرتے ہیں۔ کوئی شخص حق کی دعوت میں اپنی روح کی غذا پالیتاہے۔ وہ فوراً اس کو قبول کرکے اپنے آپ کو اس سے وابستہ کردیتاہے اور کسی کی نفسیات اس کےلیے حق کو ماننے میں رکاوٹ بن جاتی ہے۔ وہ اس سے بدکتاہے، حتی کہ اس کا مخالف بن کر کھڑا ہوجاتاہے۔ حق کی دعوت جس شخص کےلیے اس کے دل کی آواز ثابت ہو وہی علم والا انسان ہے۔ اس کے اندر فطرت کی خدائی روشنی زندہ تھی ۔ اس ليے اس نے حق کے ظاہر ہوتے ہی اس کو پہچان لیا۔ اس کے مقابلہ میں وہ لوگ جاہل ہیں جو اپنی فطرت کی روشنی پر پردہ ڈالے ہوئے ہوں اور جب حق ان کے سامنے بے نقاب ہو تو اس کو پہچاننے میں ناکام رہیں۔