Faatir • UR-TAZKIRUL-QURAN
﴿ أَوَلَمْ يَسِيرُوا۟ فِى ٱلْأَرْضِ فَيَنظُرُوا۟ كَيْفَ كَانَ عَٰقِبَةُ ٱلَّذِينَ مِن قَبْلِهِمْ وَكَانُوٓا۟ أَشَدَّ مِنْهُمْ قُوَّةًۭ ۚ وَمَا كَانَ ٱللَّهُ لِيُعْجِزَهُۥ مِن شَىْءٍۢ فِى ٱلسَّمَٰوَٰتِ وَلَا فِى ٱلْأَرْضِ ۚ إِنَّهُۥ كَانَ عَلِيمًۭا قَدِيرًۭا ﴾
“Have they never journeyed about the earth and beheld what happened in the end to those [deniers of the truth] who lived before their time and were [so much] greater than they in power? And [do they not see that the will of] God can never be foiled by anything whatever in the heavens or on earth, since, verily, He is all-knowing, infinite in His power?”
عرب کے لوگ جب سنتے کہ یہود نے اور دوسری قوموں نے اپنے نبیوں کی نافرمانی کی تو وہ پرجوش طورپر کہتے کہ اگر ایسا ہو کہ ہمارے درمیان کوئی نبی آئے تو ہم اس کو پوری طرح مانیں اور اس کی اطاعت کریں۔ مگر جب ان کے درمیان ایک پیغمبر آیا تو وہ اس کے مخالف بن گئے۔ یہ نفسیات کسی نہ کسی شکل میں تمام لوگوں میں پائی جاتی ہے۔ اس دنیا میں ہر آدمی کا یہ حال ہے کہ وہ اپنے کو حق پسند کے روپ میں ظاہر کرتا ہے۔ وہ کہتا ہے کہ جب بھی کوئی صحیح بات اس کے سامنے آئے گی تو وہ ضرور اس کو مان لے گا۔ مگر جب حق کھلے کھلے دلائل کے ساتھ آتاہے تو وہ اس کو نظر انداز کردیتا ہے۔ حتی کہ اس کا مخالف بن جاتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ انکار حق کسی خاص قوم کی خصوصیت نہیں۔ وہ انسانی نفسیات کی عام خصوصیت ہے۔ حق کو ماننا اکثر حالات میں اپنی بڑائی کو ختم کرنے کے ہم معنی ہوتاہے۔ آدمی اپنی بڑائی کو کھونا نہیں چاہتا۔ اس ليے وہ حق کو ماننے کےلیے بھی تیار نہیں ہوتا۔ وہ بھول جاتاہے کہ حق کا انکار ضرور اس کے بس میںہے مگر حق کے انکار کے انجام سے اپنے آپ کو بچانا ہر گز اس کے بس میں نہیں۔