Faatir • UR-TAZKIRUL-QURAN
﴿ أَفَمَن زُيِّنَ لَهُۥ سُوٓءُ عَمَلِهِۦ فَرَءَاهُ حَسَنًۭا ۖ فَإِنَّ ٱللَّهَ يُضِلُّ مَن يَشَآءُ وَيَهْدِى مَن يَشَآءُ ۖ فَلَا تَذْهَبْ نَفْسُكَ عَلَيْهِمْ حَسَرَٰتٍ ۚ إِنَّ ٱللَّهَ عَلِيمٌۢ بِمَا يَصْنَعُونَ ﴾
“Is, then, he to whom the evil of his own doings is [so] alluring that [in the end] he regards it as good [anything but a follower of Satan]? For, verily, God lets go astray him that wills [to go astray], just as He guides him that wills [to be guided]. Hence, [O believer,] do not waste thyself in sorrowing over them: verily, God has full knowledge of all that they do!”
اللہ تعالیٰ نے ہر آدمی کو یہ صلاحیت دی ہے کہ وہ سوچے اور حق اور ناحق کے درمیان تمیز کرسکے۔ جو آدمی اپنی اس فطری صلاحیت کو استعمال کرتا ہے وہ ہدایت پاتا ہے۔ اور جوشخص اس فطری صلاحیت کو استعمال نہیں کرتا وہ ہدایت نہیں پاتا۔ آدمی کے سامنے جب حق آئے تو فوراً اس کے ذہن کو جھٹکا لگتا ہے۔ اس وقت اس کےلیے دوراستے ہوتے ہیں۔ اگر وہ حق کا اعتراف کرلے تو اس کا ذہن صحیح سمت میں چل پڑتا ہے۔ وہ حق کا مسافر بن جاتا ہے اس کے برعکس، اگر ایسا ہو کہ کوئی مصلحت یا کوئی نفسیاتی پیچیدگی اس کے سامنے آ ئے اور وہ اس سے متاثر ہو کر حق کا اعتراف کرنے سے رک جائے تو اس کا ذہن اپنے عدم اعتراف کو جائز ثابت کرنے کےلیے باتیں گھڑنا شروع کرتا ہے۔ وہ اپنے برے عمل کو اچھا عمل ثابت کرنے کی کوشش کرتاہے۔ یہ ایک ذہنی بیماری ہے۔ اور جو لوگ اس قسم کی ذہنی بیماری میں مبتلا ہو جائیں وہ کبھی حق کا اعترا ف نہیں کرپاتے۔یہاں تک کہ اسی حال میں مرکر وہ خدا کے یہاں پہنچ جاتے ہیں۔ تاکہ اپنے کيے کا انجام پائیں۔