Az-Zumar • UR-TAZKIRUL-QURAN
﴿ فَٱعْبُدُوا۟ مَا شِئْتُم مِّن دُونِهِۦ ۗ قُلْ إِنَّ ٱلْخَٰسِرِينَ ٱلَّذِينَ خَسِرُوٓا۟ أَنفُسَهُمْ وَأَهْلِيهِمْ يَوْمَ ٱلْقِيَٰمَةِ ۗ أَلَا ذَٰلِكَ هُوَ ٱلْخُسْرَانُ ٱلْمُبِينُ ﴾
“and [it is up to you, O sinners, to] worship whatever you please instead of Him!” Say: “Behold, the [true] losers will be they who shall have lost their own selves and their kith and kin on Resurrection Day: for is not this, this, the [most] obvious loss?”
پیغمبر کی اصل دعوت یہ ہوتی ہے کہ لوگ صرف ایک خدا کے پرستار بنیں۔ اس کے سوا دوسری تمام چیزوں کی پرستاری چھوڑدیں۔ پیغمبر کےلیے یہ معروف معنوں میں صرف قیادتی مسئلہ نہیں ہوتا بلکہ وہ اس کا ذاتی مسئلہ ہوتا ہے۔ اس ليے وہ سب سے پہلے خود اس پر قائم ہوتاہے۔ پیغمبر کو یقین ہوتا ہے کہ آدمی کے نفع اور نقصان کا اصل فیصلہ آخرت میں ہونے والا ہے۔ اس ليے وہ خود اپنی زندگی کو آخرت کی راہ میں لگاتا ہے اور دوسروں کو اس کی طرف لگنے کی دعوت دیتا ہے۔ پیغمبر کے کام کی یہ نوعیت داعی کے کام کی نوعیت کو بتا رہی ہے۔ حق کا داعی وہی شخص ہے جس کےلیے حق اس کا ذاتی مسئلہ بن جائے۔ جس کی دعوت اس کی اندرونی حالت کا ایک بے تابانہ اظہار ہو، نہ کہ لاؤڈاسپیکر کی طرح صرف ایک خارجی پکار۔