Az-Zumar • UR-TAZKIRUL-QURAN
﴿ وَلَئِن سَأَلْتَهُم مَّنْ خَلَقَ ٱلسَّمَٰوَٰتِ وَٱلْأَرْضَ لَيَقُولُنَّ ٱللَّهُ ۚ قُلْ أَفَرَءَيْتُم مَّا تَدْعُونَ مِن دُونِ ٱللَّهِ إِنْ أَرَادَنِىَ ٱللَّهُ بِضُرٍّ هَلْ هُنَّ كَٰشِفَٰتُ ضُرِّهِۦٓ أَوْ أَرَادَنِى بِرَحْمَةٍ هَلْ هُنَّ مُمْسِكَٰتُ رَحْمَتِهِۦ ۚ قُلْ حَسْبِىَ ٱللَّهُ ۖ عَلَيْهِ يَتَوَكَّلُ ٱلْمُتَوَكِّلُونَ ﴾
“And thus it is [with most people]: if thou ask them, “Who is it that has created the heavens and the earth?” - they will surely answer, “God.” Say: “Have you, then, ever considered what it is that you invoke instead of God? If God wills that harm should befall me, could those [imaginary powers] remove the harm inflicted by Him? Or, if He wills that grace should alight on me, could they withhold His grace [from me]?” Say: “God is enough for me! In Him [alone] place their trust all who have trust [in His existence].””
انسان ہر دور میں غیر اللہ کی عبادت کرتا رہا ہے۔ مگر کوئی شخص یہ کہنے کی ہمت نہیں کرتا کہ اس کی انھیں پسندیدہ ہستیوں نے زمین وآسمان کو بنایا ہے۔ یا تکلیف اور آرام کے واقعات کے حقیقی اسباب ان کے اختیار میں ہیں۔ اس بے یقینی کے باوجود لوگوں کا یہ یقین بڑا عجیب ہے کہ وہ اپنے جھوٹے معبودوں کو چھوڑنے پر راضی نہیں ہوتے۔ جب داعی کی دلیلیں مدعو پر بے اثر ثابت ہوں تو اس وقت اس کے پاس کہنے کی جو بات ہوتی ہے وہ یہ کہ — تم جو چاہے کرو، جب آخری فیصلے کا دن آئے گا تو وہ بتادے گا کہ کون حق پر تھا اور کون ناحق پر۔ یہ دلیل کے بعد یقین کا اظہار ہے، اور داعی کا آخری کلمه ہمیشہ یہی ہوتا ہے۔