Az-Zumar • UR-TAZKIRUL-QURAN
﴿ إِنَّآ أَنزَلْنَا عَلَيْكَ ٱلْكِتَٰبَ لِلنَّاسِ بِٱلْحَقِّ ۖ فَمَنِ ٱهْتَدَىٰ فَلِنَفْسِهِۦ ۖ وَمَن ضَلَّ فَإِنَّمَا يَضِلُّ عَلَيْهَا ۖ وَمَآ أَنتَ عَلَيْهِم بِوَكِيلٍ ﴾
“BEHOLD, from on high have We bestowed upon thee this divine writ, setting forth the truth for [the benefit of all] mankind. And whoever chooses to be guided [thereby], does so for his own good, and whoever chooses to go astray, goes but astray to his own hurt; and thou hast not the power to determine their fate.”
انسان ہر دور میں غیر اللہ کی عبادت کرتا رہا ہے۔ مگر کوئی شخص یہ کہنے کی ہمت نہیں کرتا کہ اس کی انھیں پسندیدہ ہستیوں نے زمین وآسمان کو بنایا ہے۔ یا تکلیف اور آرام کے واقعات کے حقیقی اسباب ان کے اختیار میں ہیں۔ اس بے یقینی کے باوجود لوگوں کا یہ یقین بڑا عجیب ہے کہ وہ اپنے جھوٹے معبودوں کو چھوڑنے پر راضی نہیں ہوتے۔ جب داعی کی دلیلیں مدعو پر بے اثر ثابت ہوں تو اس وقت اس کے پاس کہنے کی جو بات ہوتی ہے وہ یہ کہ — تم جو چاہے کرو، جب آخری فیصلے کا دن آئے گا تو وہ بتادے گا کہ کون حق پر تھا اور کون ناحق پر۔ یہ دلیل کے بعد یقین کا اظہار ہے، اور داعی کا آخری کلمه ہمیشہ یہی ہوتا ہے۔