Az-Zumar • UR-TAZKIRUL-QURAN
﴿ قُلِ ٱللَّهُمَّ فَاطِرَ ٱلسَّمَٰوَٰتِ وَٱلْأَرْضِ عَٰلِمَ ٱلْغَيْبِ وَٱلشَّهَٰدَةِ أَنتَ تَحْكُمُ بَيْنَ عِبَادِكَ فِى مَا كَانُوا۟ فِيهِ يَخْتَلِفُونَ ﴾
“Say: “O God! Originator of the heavens and the earth! Knower of all that is beyond the reach of a created being’s perception, as well as of all that can be witnessed by a creature’s senses or mind! It is Thou who wilt judge between Thy servants [on Resurrection Day] with regard to all on which they were wont to differ!””
عرب کے مشرکین جن کے متعلق یہ عقیدہ رکھتے تھے کہ خدا کے یہاں وہ ان کی شفاعت کرنے والے بن جائیں گے وہ حقیقۃً پتھر کے بت نہ تھے۔ یہ وہ بزرگ ہستیاں تھیں جن کی علامت کے طور پر انھوںنے پتھر کے بت بنا رکھے تھے۔ ان کے شفعاء دراصل ان کے قومی اکابر تھے جن کے متعلق ان کا عقیدہ تھا کہ ان کا دامن پکڑے رہو، وہ خدا کے یہاں تمھارے ليے کافی ہوجائیںگے۔ جو لوگ غیر اللہ کے بارے میں اس قسم کا عقیدہ بنائیں، دھیرے دھیرے ان کا حال یہ ہوجاتا ہے کہ ان کی ساری عقیدتیں اور شیفتگیاں ان ہی غیر خدائی شخصیتوں کے ساتھ وابستہ ہوجاتی ہیں۔ ان شخصیتوں کی بڑائی کا چرچا کیا جائے تو اس کو سن کر وہ خوب خوش ہوتے ہیں۔ لیکن اگر ایک خدا کی بڑائی بیان کی جائے تو ان کی روح کو اس سے کوئی غذا نہیں ملتی۔ ایسے لوگوں کے سامنے خواہ کتنے ہی طاقت وردلائل کے ساتھ توحید خالص کو بیان کیا جائے وہ اس کو ماننے والے نہیں بنتے۔ ان کی آنکھ صرف اس وقت کھلتی ہے جب کہ قیامت کا پردہ پھاڑ کر خدا کا جلال بے نقاب ہوجائے۔ آج آدمی کا حال یہ ہے کہ وہ اعتراف کے الفاظ دینے کےلیے بھی تیار نہیں ہوتا مگر جب وہ وقت آئے گا تو وہ چاہے گا کہ جو کچھ اس کے پاس ہے سب اس سے بچنے کےلیے فدیہ میں دے ڈالے۔ مگر وہاں آدمی کے اپنے اعمال کے سوا کوئی چیز نہ ہوگی جو اس کے کام آسکے۔