Az-Zumar • UR-TAZKIRUL-QURAN
﴿ قَدْ قَالَهَا ٱلَّذِينَ مِن قَبْلِهِمْ فَمَآ أَغْنَىٰ عَنْهُم مَّا كَانُوا۟ يَكْسِبُونَ ﴾
“The same did say [to themselves many of] those who lived before their time; but of no avail to them was all that they had ever achieved:”
دنیا میں آدمی کو جب کوئی چیز ملتی ہے تو وہ اس کو اپنی لیاقت کا نتیجہ سمجھ کر خوش ہوتاہے۔ حالاں کہ دنیا کی چیزیں آزمائش کا سامان ہیں، نہ کہ لیاقت کا انعام۔ اسی حقیقت کو جاننا سب سے بڑا علم ہے۔ دنیا کی چیزوں کو آدمی اگر اپنی لیاقت کا نتیجہ سمجھ لے تو اس سے اس کے اندر فخر اور گھمنڈ کی نفسیات ابھرے گی۔ اس کے برعکس، جب آدمی ان کو آزمائش کا سامان سمجھتاہے تو اس کے اندر شکر اور تواضع کے جذبات پیدا ہوتے ہیں۔ رزقِ دنیا کی کمی یا زیادتی تمام تر انسانی اختیار سے باہر کی چیز ہے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ انسان کے باہر کوئی قوت ہے جو یہ فیصلہ کرتی ہے کہ کس کو زیادہ ملے اور کس کو کم دیا جائے۔ یہ واقعہ بتاتا ہے کہ رزق کا فیصلہ شخصی لیاقت کی بنیاد پر نہیں ہوتا۔ اس کا فیصلہ کسی اور بنیاد پر ہوتا ہے۔ وہ بنیاد یہی ہے کہ موجودہ دنیا امتحان کی جگہ ہے، نہ کہ انعام کی جگہ۔ اس ليے یہاں کسی کو جو کچھ ملتاہے وہ اس کے امتحان کا پرچہ ہوتا ہے۔ امتحان لینے والا اپنے فیصلہ کے تحت کسی کو کوئی پرچہ دیتاہے اور کسی کو کوئی پرچہ۔ کسی کو ایک قسم کے حالات میں آزماتا ہے اور کسی کو دوسرے قسم کے حالات میں۔