An-Nisaa • UR-TAZKIRUL-QURAN
﴿ وَإِذَا كُنتَ فِيهِمْ فَأَقَمْتَ لَهُمُ ٱلصَّلَوٰةَ فَلْتَقُمْ طَآئِفَةٌۭ مِّنْهُم مَّعَكَ وَلْيَأْخُذُوٓا۟ أَسْلِحَتَهُمْ فَإِذَا سَجَدُوا۟ فَلْيَكُونُوا۟ مِن وَرَآئِكُمْ وَلْتَأْتِ طَآئِفَةٌ أُخْرَىٰ لَمْ يُصَلُّوا۟ فَلْيُصَلُّوا۟ مَعَكَ وَلْيَأْخُذُوا۟ حِذْرَهُمْ وَأَسْلِحَتَهُمْ ۗ وَدَّ ٱلَّذِينَ كَفَرُوا۟ لَوْ تَغْفُلُونَ عَنْ أَسْلِحَتِكُمْ وَأَمْتِعَتِكُمْ فَيَمِيلُونَ عَلَيْكُم مَّيْلَةًۭ وَٰحِدَةًۭ ۚ وَلَا جُنَاحَ عَلَيْكُمْ إِن كَانَ بِكُمْ أَذًۭى مِّن مَّطَرٍ أَوْ كُنتُم مَّرْضَىٰٓ أَن تَضَعُوٓا۟ أَسْلِحَتَكُمْ ۖ وَخُذُوا۟ حِذْرَكُمْ ۗ إِنَّ ٱللَّهَ أَعَدَّ لِلْكَٰفِرِينَ عَذَابًۭا مُّهِينًۭا ﴾
“Thus, when thou art among the believers and about to lead them in prayer, let [only] part of them stand up with thee, retaining their arms. Then, after they have finished their prayer, let them provide you cover while another group, who have not yet prayed, shall come forward and pray with thee, being fully prepared against danger and retaining their arms: (for) those who are bent on denying the truth would love to see you oblivious of your arms and your equipment, so that they might fall upon you in a surprise attack. But it shall not be wrong for you to lay down your arms [while you pray] if you are troubled by rain or if you are ill; but [always] be fully prepared against danger. Verily, God has readied shameful suffering for all who deny the truth!”
دین میں جتنے اعمال بتائے گئے خواہ وہ نماز اور زکوۃ کی قسم سے ہوں یا تبلیغ اور جہاد کی قسم سے، سب کا آخری مقصود اللہ کی یاد ہے۔ تمام اعمال کا اصل مدعا یہ ہے کہ ایسا انسان تیار ہو جو اس طرح جئے کہ خدا اس کی یادوں میں بسا ہوا ہو۔ زندگی کا ہر موڑ اس کو خدا کی یاد دلانے والا بن جائے۔ اندیشہ کا موقع اس کو اللہ سے ڈرائے، امید کا موقع اس کے اندر اللہ کا شوق پیدا کرے۔ اس کا بھروسہ اللہ پر ہو۔ اس کی توجهات اللہ کی طرف لگی ہوئی ہوں۔ جو چیز ملے اس کو وہ اللہ کی طرف سے آئی ہوئی جانے اور جو چیز نہ ملے اس کو اللہ کے حکم کا نتیجہ سمجھے۔ اس کی پوری اندرونی ہستی اللہ کے جلال وجمال میں کھوئی ہوئی ہو۔ یہ معاملہ اتنا اہم ہے کہ جنگ کے نازک ترین موقع پر بھی کسی نہ کسی شکل میں نماز ادا کرنے کا حکم ہوا تاکہ موت کے کنارے کھڑے ہو کر انسان کو یاد دلایا جائے کہ وہ اصل چیز کیا ہے جو بندے کو اس دنیا سے لے کر اپنے رب کے پاس جانا چاہیے۔ اہل ایمان کا بھروسہ اگرچہ تمام تر اللہ پر ہوتا ہے ۔ مگر اسی کے ساتھ حکم ہے کہ دشمنوں سے اپنے بچاؤ کا ظاہری سامان مہیا رکھو۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اللہ کی مدد ظاہری سامان کے اندر ہو کر ہی آتی ہے۔ اہل ایمان نے اگر اپنے بچاؤ کا ممکن انتظام نہ کیا ہو تو گویا انھوںنے وہ شکل ہی کھڑی نہیں کی جس کے ڈھانچے میں اللہ کی مدد اتر کر ان کی طرف آئے۔ مومن کو دنیا میں جو مصیبتیں پیش آتی ہیں وہ اللہ کے منصوبہ کی قیمت ہیں کہ وہ آزمائشی حالات پیدا کرکے دیکھے کہ کون سچائی پر قائم رہنے والا ہے اور کون دوسروں کو ناحق ستانے والا۔ اسلام اور غیر اسلام کی کش مکش میں کبھی اہل اسلام کو شکست اور نقصان پہنچ جاتا ہے۔ اس وقت کچھ لوگ پست ہمت ہونے لگتے ہیں۔ مگر ایسے حادثات میں بھی اللہ کی مصلحت شامل رہتی ہے۔ وہ اس لیے پیش آتے ہیں کہ بندہ کے اندر مزید انابت اور توجہ ابھرے اور اس کے نتیجہ میں وہ اللہ کی مزید عنایتوں کا مستحق بنے۔