slot qris slot gacor terbaru slot gacor terbaik slot dana link slot gacor slot deposit qris slot pulsa slot gacor situs slot gacor slot deposit qris slot qris bokep indo
| uswah-academy
WhatsApp Book A Free Trial
القائمة

🕋 تفسير الآية 107 من سورة سُورَةُ النِّسَاءِ

An-Nisaa • UR-TAZKIRUL-QURAN

﴿ وَلَا تُجَٰدِلْ عَنِ ٱلَّذِينَ يَخْتَانُونَ أَنفُسَهُمْ ۚ إِنَّ ٱللَّهَ لَا يُحِبُّ مَن كَانَ خَوَّانًا أَثِيمًۭا ﴾

“Yet do not argue in behalf of those who are false to their own selves: verily, God does not love those who betray their trust and persist in sinful ways.”

📝 التفسير:

انسان کی یہ ضرورت ہے کہ وہ مل جل کر رہے۔ یہی ضرورت قوم یا گروہ کو وجود میں لاتی ہے۔ اجتماعیت سے وابستہ ہو کر ایک آدمی اپنی طاقت کو ہزاروں لاکھوں گنا بڑا کرلیتا ہے۔ مگر دھیرے دھیرے ایساہوتا ہے کہ جو چیز اجتماعی ضرورت کے طورپر بنی تھی وہ اجتماعی مذہب کا درجہ حاصل کرلیتی ہے۔ وہ بذات خود لوگوں کا مقصود بن جاتی ہے۔ اب یہ ذہن بن جاتاہے کہ ’’میرا گروہ خواہ وہ صحیح ہو یا غلط۔ میری قوم خواہ وہ حق پر ہو یا باطل پر‘‘ اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ لوگوں کو اپنا حلقہ اہم دکھائی دیتا ہے اور دوسرا حلقہ غیراہم۔ اپنے حلقہ کا آدمی اگر باطل پر ہے تب بھی اس کی حمایت ضروری سمجھی جاتی ہے اور دوسرے حلقہ کا آدمی اگر حق پر ہے تب بھی اس کا ساتھ نہیں دیاجاتا۔ کسی گروہ میں یہ ذہن بن جائے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ اس نے اپنی گروہی مصلحتوں اور جماعتی تعصبات کو معیار کا درجہ دے دیا۔ حالانکہ صحیح بات یہ ہے کہ آدمی اللہ کی ہدایت کو معیار کا درجہ دے اور اس کی روشنی میں اپنا رویہ متعین کرے نہ کہ دنیوی مصلحتوں اور جماعتی تعصبات کے تحت۔ ایک آدمی غلطی کرے تو اس کا ہاتھ پکڑا جائے خواہ وہ اپنا ہو۔ ایک آدمی صحیح بات کہے تو اس کا ساتھ دیا جائے خواہ وہ کوئی غیر ہو۔ حتی کہ ایسا معاملہ جس میں ایک فریق اپناہو اور ایک فريق باہر کا، تب بھی معاملہ کو اپنے اور غیر کی نظر سے نہ دیکھا جائے بلکہ حق اور ناحق کی نظر سے دیکھا جائے اور ہر دوسری چیز کی پر واہ کیے بغیر اپنے کو حق کی جانب کھڑا کیاجائے۔ سچائی کو چھوڑنا، خود اپنے آپ کو چھوڑنے کے ہم معنی ہے۔ جب آدمی دوسرے کے ساتھ خیانت کرتا ہے تو سب سے پہلے وہ اپنے ساتھ خیانت کرچکا ہوتا ہے۔ کیوں کہ ہر سینہ کے اندر اللہ نے اپنا ایک نمائندہ بٹھا دیا ہے۔ یہ انسان کا ضمیر ہے۔ جب بھی آدمی حق کے خلاف جانے کا ارادہ کرتا ہے تو یہ اندر کا چھپا ہوا نمائندهٔ حق اس کو ٹوکتا ہے۔ اس اندرونی آواز کو آدمی دباتا ہے اور اس کو نظر انداز کرتا ہے۔ اس کے بعد ہی یہ ممکن ہوتا ہے کہ وہ انصاف کے راستہ کو چھوڑے اور بے انصافی کے راستہ پر چل پڑے۔ مزید یہ کہ آدمی جب ناحق میں كسی کا ساتھ دیتا ہے تو وہ انسان کا لحاظ کرنے کی وجہ سے ہوتا ہے۔ دنیوی تعلقات اور مصلحتوں کی وجہ سے وہ ایک شخص کو نظر انداز نہیں کر پاتا اس لیے وہ اس کو غلط جانتے ہوئے بھي اس کا ساتھی بن جاتا ہے۔ مگرناحق کے باوجود ایک شخص کو نہ چھوڑنا ہمیشہ اس قیمت پر ہوتا ہے کہ آدمی اپنے خدا کو چھوڑ دے۔ عین اس وقت جب کہ وہ دنیا میں ایک شخص کا ساتھ دیتا ہے، آخرت میں وہ خدا کے ساتھ سے محروم ہوجاتا ہے۔